کشمیر کے متعلق مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے وہاں کی
قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کو دیکھ کر کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت کے
مانند ہے۔ ہمالیہ اور پیرپنچال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع کشمیر کی
وادی کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ وادی اپنے حسن کے باعث
آج بھی پوری دنیا میں زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔ اِس وقت یہ خوبصورت
وادی تین ممالک کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ جموں وکشمیر اور لدّاخ کا علاقہ
ہندوستان کے پاس ہے، پونچھ، مظفرآباد، گلگت اور بلتستان پاکستان کے قبضہ
میں ہے، جبکہ اکسائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ چین کے قبضہ میں ہے۔ تبت
اور سنکیانگ کے درمیان اہم شاہراہ اسی علاقہ سے گزرتی ہے اس لئے یہ علاقہ
چین کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان سیاچن گلیشئیر سمیت تمام
بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتاً کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہے۔ ہندوستان
مجموعی طور پر 101,387 مربع کیلومیٹر، پاکستان 85,846 مربع کیلومیٹر اور
چین 37,555 مربع کیلومیٹرپر قابض ہے۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے وقت زیادہ
تر مہاراجاؤں اور نوابوں نے اپنی آبادی کی خواہش کی بنا پر ہندوستان یا
پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے کشمیر مستقل خود
مختار ریاست تھی جس پر مہاراجا ہری سنگھ کی حکمرانی تھی جو مہاراجا پرتاب
سنگھ کے بھتیجے تھے اور مہاراجا پرتاب سنگھ کے بعد مہاراجا ہری سنگھ ہی
کشمیر علاقہ کے حکمراں بنے تھے۔ ابتدا میں مہاراجا ہری سنگھ نے ریاست کے
آزاد رہنے کو ترجیح دی مگر حالات خراب ہونے پر انہوں نے ہندوستان سے چند
شرائط کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان
ایک طویل جنگ بھی ہوئی جو ۱۹۴۹ء تک جاری رہی۔ ۱۹۴۹ء میں جنگ بندی کے بعد
سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۵ء
میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مزید ایک جنگ ہوئی۔ ۱۹۹۹ء میں ایک بار
پھر دونوں ملک کی فوجیں لڑتی ہوئی نظر آئیں۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ جنگ سے
نقصانات زیادہ ہوتے ہیں اور عموماً جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں،
چنانچہ اِن جنگوں سے بھی نہ توکشمیر کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی کشمیریوں کو
اِن جنگوں سے کوئی فائدہ ہوا۔ ۱۹۷۱ء میں بھی دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگ
ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور بنگلادیش نام سے
دنیا میں ایک نیا ملک وجود میں آیا۔
جموں وکشمیر ہندوستان کی شمالی ریاست ہے، جو تین حصوں پر منقسم ہے: وادی
کشمیر ، جموں اور لدّاخ۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت
ہے۔ وادی کشمیر اپنی فطری خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، جبکہ
جموں ہزاروں ہندو زائرین کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ لدّاخ جسے ’’تبت صغیر‘‘
بھی کہا جاتا ہے، اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث پوری دنیا میں
پہچانا جاتا ہے۔ ہندوستان کی جموں وکشمیر ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہے،
تاہم ہندو، بودھ اور سکھ بھی اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔ وادی کشمیر میں
۹۵ فیصد، جموں میں ۲۸ فیصد اور لدّاخ میں ۴۴ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ جموں
میں ہندو ۶۶ فیصد اور لداخ میں بودھ ۵۰ فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔
ہندوستان کی ریاست ’’کشمیر‘‘ کے آخری حکمراں ’’مہاراجا ہری سنگھ‘‘ نے چند
شرطوں کے ساتھ ہی ہندوستان سے الحاق کیا تھا، جو ہندوستانی دستور کے مطابق
۳۷۰ اور ۳۵A وغیرہ دفعات میں مذکور ہیں، یعنی ملک کی آزادی کے بعد کشمیر
چند شرائط کے ساتھ ہی ہندوستان کا حصہ بنا تھا ۔ کشمیر کی طرح ہندوستان کی
بعض دوسری ریاستوں مثلاً ناگالینڈ، میزروم، سکّم اور ہماچل پردیش کو بھی
ہندوستانی دستور کے مطابق خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ مثلاً کشمیر کی طرح ان
مذکورہ صوبوں میں بھی وہاں کی زمین ہندوستان کے دوسرے صوبوں والے نہیں خرید
سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
۵ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے کشمیر سے متعلق
ہندوستانی قوانین کی ہی دو اہم دفعات ۳۷۰ اور ۳۵A کو ختم کرکے اس کا مستقل
ریاست کا درجہ بھی ختم کردیا اور اس پورے علاقہ کو دہلی مرکز کے تابع بناکر
دو حصوں جموں کشمیر اور لدّاخ میں تقسیم کردیا، یعنی لکشادیب اور پانڈچیری
کی طرح اب جموں وکشمیر اور لدّاخ بھی بے شمار مسائل میں دہلی مرکز کے بغیر
کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ ۵ اگست ۲۰۱۹ء کو جموں وکشمیر ریاست سے متعلق
بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے دو اہم فیصلے کئے۔ سالوں
سال سے جاری جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا اور علاقہ کو دو حصوں میں
تقسیم کرکے انہیں دہلی میں قائم مرکزی حکومت کے تابع کردیا۔
ملک کا ہر فرد یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور
یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان خاص کر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی تحریک آج
تک نہیں چلائی گئی کہ کشمیر کو کسی پڑوسی ملک کو دے دیا جائے۔ جب کشمیر کے
حکمراں مہاراجا ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق چند شرائط کے ساتھ کیا
تھا اور وہ شرائط ہمارے ملک کے دستور میں تحریر بھی ہیں۔ جب بھی اس مسئلہ
کو اٹھایا گیا یہی بات سامنے آئی کہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر کوئی بڑا
فیصلہ نہ کیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کو کیا تنہا حق پہنچتا ہے کہ
وہ کشمیریوں سے رائے مشورہ کے بغیر اُن شرائط کو ختم کردے جن شرائط کے ساتھ
کشمیر ہندوستان کا حصہ بنا تھا۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا
دعویٰ کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے قول وعمل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارے
ملک کا اتنا بڑا فیصلہ بھی جمہوری طریقہ کے مطابق ہی ہونا چاہئے تھا۔ اگر
بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں ہندوستانی حکومت نے جمہوری طریقہ پر
کشمیریوں کی رائے سے یہ قدم اٹھایا ہوتا یا کم از کم کشمیر میں صوبائی
حکومت کو بحال کرکے اس میں کوئی بل پاس کراکے کیا ہوتا تو آج حکومت کے اِس
فیصلہ کو اتنا نشانہ نہ بنایا جاتا۔ مگر ملک وقوم کے مفاد کے بجائے زعفرانی
ذہنیت اور طاقت کے نشہ میں چور موجودہ حکومت نے صرف ووٹ بینک کے لئے اور
ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے لئے یہ فیصلہ لیا ہے۔ ہمیں
ڈر ہے کہ نوٹ بندی کی طرح حکومت کا یہ فیصلہ بھی گلے کی ہڈی نہ بن جائے۔
کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست نہیں ہے جسے یہ خصوصی اختیارات حاصل ہوں بلکہ
ناگالینڈ، میزروم، سکّم، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کو بھی آج تک اسی نوعیت
کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ حکومت کا دیگر ریاستوں کے خصوصی اختیارات کو
ختم نہ کرکے صرف کشمیر کے خصوصی اختیارات کو ختم کرنا اور وہ بھی کشمیریوں
سے رائے مشورہ کے بغیر اور اس حال میں کہ جموں وکشمیر کی صوبائی حکومت کو
پہلے ہی مرکز نے ختم کرکے گورنر راج نافذ کر رکھا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال
ہے کہ حکومت کے اس قدم سے بظاہر کشمیر میں امن وامان بحال ہونا آسان نہیں
ہے بلکہ اس سے خون خرابے میں اضافے کا ہی اندیشہ ہے۔ اسی وجہ سے حکومت نے
دو ماہ سے کشمیر کو دنیا سے منقطع کررکھا ہے۔ کشمیر کے باشندے، سابق مرکزی
وزیر اور کانگریس پارٹی کے بڑے لیڈر کو بھی کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی
گئی۔ جب انہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا سہارا لیا تب
حکومت کی مرضی کے خلاف سپریم کورٹ نے اُن کو کشمیر جانے کی اجازت دی، وہاں
سے واپسی کے بعد کشمیر کی صورت حال پر انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ صورت
حال ہماری سوچ سے بھی زیادہ خراب ہے۔ امریکی سینٹ کمیٹی نے بھی کشمیر کی
صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میگسیسے انعام یافتہ سماجی کارکن
سندیپ پانڈے کی قیادت میں راشٹریہ جن آندولن سمنوئے کے ایک وفد کو کل کشمیر
ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور جبراً دہلی واپس بھیج دیا گیا۔ انہوں نے
صحافیوں کو بتایا کہ بڑی تعداد میں لوگ جیل میں بند ہیں یا نظر بندہیں اور
حالات انتہائی خراب ہیں۔
دو ماہ سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے، اُس کشمیر کے باشندے جس کو ہم دنیا کی
جنت کہتے ہیں اور جسے ہم ہندوسان کا اٹوٹ حصہ کہتے ہیں آج گھروں میں قید
ہیں، بہت سے علاقوں میں کرفیو نافذ ہے، کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، تعلیمی ادارے
بند ہیں، بھوک پیاس اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔
مواصلاتی نظام بند ہے، جس کی وجہ سے کشمیر اور کشمیریوں کے احوال سے متعلق
کوئی صحیح خبر آسانی سے باہر نہیں آرہی ہے۔ لوگ خوف وڈر کی وجہ سے اپنے میت
کو گھر کے صحن میں ہی دفن کرنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستانی مسلمان کشمیریوں کے
ساتھ ہیں لیکن ملک کی موجودہ صورت حال اور ۷۲ سال سے پاکستان کے مسئلہ
کشمیر کو مذہبی رنگ دینے کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ اگر
ہندوستان کا مسلمان کھل کر کشمیریوں کی آواز میں آواز بلند کرتا ہے تو اسے
پاکستان ہونے کے کا لیبل لگ جائے گا۔ اس لئے ہندوستانی مسلمان کشمیری
بھائیوں کے ساتھ مکمل ہمدردی رکھنے کے باوجود خاموش بیٹھنے میں ہی اپنی
عافیت سمجھے ہوا ہے۔ کشمیر کے دو خاندان جو آزادی کے بعد سے یکے با دیگرے
جموں وکشمیر کی صوبائی حکومت پر قابض رہے ہیں، وہ بھی کشمیر کی موجودہ صورت
حال کے لئے ذمہ دار ہیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پانے اور اپنے ذاتی
مفادات کے لئے کشمیر کا سودا کرکے اُس بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر
متعدد مرتبہ حکومت بنائی جس پارٹی کی غلط پالیسیاں پہلے روز سے ہی معلوم
ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر کشمیری لوگ اس دردناک صورت حال سے کیسے باہر نکلیں؟
اس لئے ہم ہندوستان کی موجودہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ حالات کو قابو میں
لانے کے لئے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کی جائے، مواصلاتی ذرائع کو آہستہ آہستہ
بحال کیا جائے، غذائیں اور دواؤں کی فراہمی کویقینی بنایا جائے، گرفتار
لوگوں کو رہا کیا جائے، جس طرح کشمیر کی سرزمین سے اپنے تعلق کا اظہار کیا
جارہا ہے اُسی طرح بلکہ اُس سے کہیں زیادہ انسانیت اور ملک وقوم کے اتحاد
کے لئے کشمیریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، اُن کو اعتماد میں لے کر بات چیت
شروع کی جائے کیونکہ کشمیر کے مسئلہ کا حل طاقت کے بل پر اور احتجاج کی
آوازوں کو دبائے جانے سے ممکن نہیں ہے بلکہ حکومت کو کشمیریوں کے موقف کو
سمجھ کر اُنہی سے مذاکرات کرکے کوئی مناسب حل نکالنا ہوگا۔
اگر ہندوستانی حکومت سمجھتی ہے کہ اُس کا حالیہ فیصلہ ملک اور کشمیریوں کے
حق میں ہے جیسا کہ وہ کہہ رہی ہے تو موجودہ حکومت ۶۰ دن گزرنے کے باوجود
حالات کو کیوں قابو نہیں کرپارہی ہے؟ ابھی تک بعض علاقوں میں کرفیو کیوں
لگا ہوا ہے؟ کاروبار کیوں ٹھپ پڑے ہیں؟ تعلیمی اداروں اور بازاروں میں چہل
پہل کیوں نظر نہیں آرہی ہے؟ غلّہ اور دواؤں کی کمی کو کیوں پورا نہیں کیا
جارہا ہے؟ آخر وہ بھی تو ہماری تمہاری طرح بھارت واسی ہیں! جب کشمیر ہمارے
ملک کا اٹوٹ حصہ ہے تو کشمیریوں کا درد سمجھنے میں تکلیف کیوں محسوس کی
جارہی ہے؟ مختلف تنظیموں کے سربراہوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو کشمیر
جانے سے کیوں روکا جارہا ہے؟
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے اِس مضمون لکھنے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں
ہوگا اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی آسانی سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرے گی،
مگر انسانیت کے ناطہ اور حکومت کے حالیہ فیصلہ سے اختلاف رائے کا اظہار
کرنے کے لئے یہ چند سطریں تحریر کرکے ہندوستان میں سیکولر مزاج کے لوگوں کو
شیئر کررہا ہوں۔ آخر میں باہ گار الٰہی میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ
کشمیریوں پر آئے موجودہ حالات کو بدل کر بہتر سے بہتر بنائے۔ اﷲ تعالیٰ
توہی اُن کا حامی ومدرگار ہے، اپنے غیبی خزانوں سے اُن کی مدد فرماکہ وہ
بھی کھلے آسمان کے نیچے چین کی نیند سوسکیں۔
(مضمون نگار متعدد کتابوں کے مصنف، النورپبلک اسکول سنبھل کے بانی اور
مشہور عالم دین ہیں جو نئی مٹکنالوجی کے ذریعہ دین اسلام کی اشاعت میں
مصروف ہیں )
|