صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں میں
ڈاکٹروں کے ہڑتال کو ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ ہو گزرا ہے جس کی وجہ سے
مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے مگر حکومت اپنی ضد پر قائم ہے جبکہ
ڈاکٹرز حضرات اپنی ضد پر اڑے ہو ئے ہیں ، نتیجتا مریض رل رہے ہیں ، سوشل
میڈیا پر عوام کی اکثریت ڈاکٹروں کو کوس رہی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید
ڈاکٹرز اپنے مالی فوائدکے لئے ہڑتال پر ہیں ، اصل حقیت سے بہت کم لوگ آشنا
ہیں۔کیونکہ جو بِل حال ہی میں خیبر پختونخوا اسمبلی سے پاس ہوا ہے اس کی
تفصیلات سے بہت کم لوگوں کو آگاہی حاصل ہو ئی ہے۔ بورڈ آف گورنر Board of
governer))ریجنل ہیلتھ آتھارٹی( RHA) ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی DHA)) جیسے
حکومت کے تشکیل شدہ باڈی سے اگر جانکاہی نہ ہو تو صوبائی حکومت اور ڈاکٹروں
کے درمیان تنازعہ کا سمجھ میں آنا ممکن نہیں ، با ایں وجہ آئیے ،پہلے آپ کو
بتا ئیں کہ مزکورہ بالا اصطلاحات کا مطلب کیا ہے ؟
کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک ایکٹ(قانون ) پاس کیا جس کے تحت
صوبہ خیبر پختونخوا کے چھ بڑے ہسپتالوں کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے اختیار سے
نکال کر میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ( MIT)کے نام سے ایک پرائیویٹ ادارے یعنی
BOG کے اختیار میں دے دیا اور ساتھ ہی ان تمام بڑے ہسپتالوں کو عرصہ بہ
عرصہ فنڈ کم کرتے ہو ئے اپنا خرچہ خود پورا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ صوبہ کے
خزانہ پر ان ہسپتالوں پربوجھ نہ پڑے۔ڈاکٹروں کی بھرتی یا خروج کا اختیار
بھی اسی بورڈ کے حوالے کی گئی۔
حال ہی میں صوبائی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا ہے ،جس کے مطابق ہر ضلع میں
ایک ڈسڑکٹ ہیلتھ اتھارٹی ہوگی ۔ضلع میں موجود DHQ, BHU, RHC اسی اتھارٹی کے
ماتحت ہو نگی ،وہی صحت سے معاملات چلایا کرینگی، ڈاکٹروں کی بھرتیاں بھی
یہی اتھارٹی کیا کرے گی۔تحصیل ناظم،ایم پی اے وغیرہ اس اتھارٹی میں شامل
ہوں گے، جس کا تعلق ِظاہر ہے ، کسی سیاسی پارٹی سے ہو گا ‘ انہی کی پسند پر
ڈاکڑوں کی بھرتی، تبادلے وغیرہ کا انحصار ہو گا ۔اگرچہ اس اتھارٹی میں
ڈاکٹروں کی نمائندگی بھی ہو گی مگر اکثریت دیگر افراد کی ہو گی ‘اس کے
قانون کے مطابق ڈاکٹرز اپنے ہی ڈومیسائل ضلع میں خدمات سرانجام دیں گے۔ اگر
ہم اس قانون کا بغور جائزہ لیں تو اس میں دو بڑی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ پہلی
خرابی تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں جو ادارہ بھی سیاسی لوگوں کے دائرہ اختیار
میں آیا ہے وہاں خرابی ہی خرابی پیدا ہو ئی ہے کیونکہ وہاں بھرتی اور
تبادلے ہمیشہ سفارش اور اثر رسوخ کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں ۔ آج اگر ملک کے
ادارے تباہ ہیں تو اس کی بڑی وجہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت ہے۔دوسری
خرابی ، ہسپتالوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی ہے، عوام پہلے سے ہی اپنا علاج
معالجہ کرانے سے قاصر ہیں ، دوائیاں مہنگی ہیں ، اوپر سے اپریشن اور بیماری
کی تشخیص کے لئے ہونے والے ٹسٹ کا خرچہ بڑھنے سے وہ مز ید مشکلات کا شکار
ہو جائینگے۔ البتہ اس بِل میں ڈاکٹروں کی ڈومیسائل کی بنیاد پر خدمات
سرانجام دینے کی شق کی مخالفت نہیں کی جا سکتی مگر عمومی طور پر حکومت کی
یہ ہیلتھ پالیسی چونکہ فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنے گی، بوجہ ازیں
باالآخر اس پر بھی پی ٹی آئی کو یو ٹرن لینا پڑے گا۔ سوشل میڈیا سے یہ
اندازہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت ڈاکٹروں سے نالاں ہے۔ مگر
میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی اکثریت نہایت اچھے لوگوں پر مشتمل ہے
بلکہ ہمارے معاشرے کا کریم ( Cream) ہے البتہ روپے پیسے کی لالچ کا عنصر ان
میں ضرور پایا جاتا ہے۔ یوں تو لالچ کے یہ وائرس ہر کسی میں موجود ہوتے ہیں
ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہو، اور وہ آرام کی زندگی گزارے، یہاں
تک کہ ارب پتی لوگ بھی مزید دولت حاصل کرنے کے مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔
مگر میری ڈاکٹر کمیو نٹی سے گزارش ہے کہ اﷲ تعالی نے انہیں عزت و دولت
دونوں نعمتوں سے نوازا ہے لہذا وہ زیادہ لالچ کرنے کی بجائے اعتدال سے کام
لیں ، وہ میڈیسن کا کاروبار کرنے والے یا لیبارٹریز کے مالکوں کے بجائے
مریضوں کا خیال رکھیں۔اور اپنے فرائضِ منصبی خلوص اور دیانتداری کے ساتھ سر
انجام دیا کریں۔ مگر ساتھ ہی میری پی ٹی آئی حکومت سے اپیل ہے کہ وہ عجلت
میں فیصلے نہ کریں اور جو فیصلہ حال ہی میں کیا ہے اور بِل پاس کیا ہے ، اس
کے بارے میں ڈاکڑز کمیو نٹی سے مذاکرات کر کے مسئلے کا حل ڈھونڈے۔ڈاکٹروں
کو بھی مطمئن کر دے اور عوام کے مفاد کو بھی مدِ نظر رکھے، ضد کرنے یا
خوامخوا اپنی اتھارٹی قائم کرنے کے لئے لچک سے گریز کسی صورت میں مفید ثابت
نہیں ہو سکتا۔ |