گزشتہ چند دنوں سے باؤلے کتوں کے کاٹنے سے بچوں کی دلخراش
اموات کے واقعات میں اضافہ کی افسوسناک اورتشویشناک خبریں زیرگردش ہیں
جوپڑھ اورسن کردل خون کے آنسوروتا ہے۔ ایسے ہی بے شمار واقعات آئے روز سننے
کو ملتے ہیں لیکن نہ تو عوام کو اس بیماری سے بچانے کیلئے کوئی آگاہی فراہم
کی جاری ہیں اور نہ ہی طبی سہولیات۔ آج جہاں ہر عوام الناس کی صحت ، تعلیم
اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کو بہتر بنانے کی باتیں اعلٰی سطحوں پر کی
جا رہی ہیں،وہیں ایک اہم اور خطرناک بیماری ریبیز(باؤلہ پن) کی ہے جسکو
مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ شہروں اور
دیہاتوں میں سینکڑوں باؤلے کتے آزادانہ گھوم رہیہیں۔اس لئے شہریوں کو اس
جان لیوا بیماری سے بچانا اور ان خطرناک کتوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی جامع
منصوبہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک طرف تو جامع کتوں کی بھر مار ہیتو
دوسری طرف علاج ناکافی ہے۔ریبیز ایک مہلک اور وائرل بیماری ہیجو نروس سسٹم
کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں موجودہوتا ہے جو اس
کے کاٹنے اور چاٹنے سے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں منتقل ہو جاتا
ہے۔ریبیز(باؤلے پن) سے متاثرہ جانوروں کا لعاب،دوسرے انسانوں اور جانوروں
کے کٹے ہوئے زخم ،آنکھ اور ناک یا منہ کے ذریعے سے داخل ہو کر ان کو متاثر
کرتا ہے۔ ایک بار ریبیز(باؤلے پن)کی علامات ظاہر ہونے پر ریبیز تقریبا تمام
صورتوں میں جان لیوا ہے۔
ریبیز بیماری عام طور پر گیدڑ ، لومڑی ، بھیڑیا ، کتے ، بلی ، چمگادڑ اور
نیولے میں نمودار ہوتی ہے۔ کچھ سالو ں سے باؤلے کتے ریبیز پھیلانے کا باعث
بن رہے ہیں ۔ریبیز کا وائرس باؤلے جانوروں سے دوسرے جانورں اور انسانوں میں
منتقل ہو کر ریبیز کاباعث بنتا ہے باؤلہ جانور کسی دوسرے کے جسم پر موجود
زخم کو چاٹ لے یا باؤلہ جانورحملہ کرکے کسی دوسرے کے جسم کو اپنے پنجوں سے
زخمی کردے۔ریبیز(باؤلے پن) سے سو فیصد تحفظ ممکن ہے اگر مندرجہ ذیل آسان
تدابیر پر عمل کیا جا سکے مثلاً "جانور کے کاٹنے کی صورت میں فوراَ زخم کو
پانی اور صابن سے دھوکر جراثیم کش دوا لگائیں اور فوراَ ڈاکٹر سے رجوع کریں
اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق "اینٹی ریبیز ویکسین" کا مکمل کورس کروائیں ،
شدید زخم کی صورت میں امینو گلوبن immunoglobulin زخم کے اندر داخل کی جاتی
ہیں۔" ماہرین کے مطابق یہ بیماری قابل علاج ہے اگر ابتدائی مراحل میں ہی
باقاعدہ علاج کر دیا جائے۔ریبیز سے متاثرہ افراد میں تقریباَ پچاس سے ساٹھ
فیصد تک بچے شامل ہیں ان میں ذیادہ تر کتے کے کاٹنے کا شکار ہوتے ہیں یہ
ریبیز کیسز کی وہ تعداد ہے جو کہ ہر سال رجسٹرڈ ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ جو اس
بیماری سے لاعلم ہوتے ہیں وہ بر وقت علاج نہ ہونے کی صورت میں موت کے منہ
میں چلے جاتے ہیں اور رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کی تعداد کا اندازہ
لگانا مشکل ہے۔ صوبہ پنجاب کے تمام شہروں ، دیہاتوں اور گلی محلوں میں
آوارہ کتے سر عام گھوم رہے ہیں اور ہر سال پچاس ہزار افراد اس کا شکار
ہورہے ہیں ، پورے پنجاب میں سرکاری سطح پر ایک ہی "اینٹی ریبیز سنٹر "بنایا
گیا ہے جہاں علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی کو آوارہ
جانور کاٹ لے تو اس کے لئے اینٹی ریبیز ویکسین لگانا نہایت ضروری ہے جس کی
ایک خوراک کی قیمت تقریبا۔/750 روپے ہے جبکہ مریض کو چار سے پانچ دفعہ
ویکسین لگانا پڑتی ہے اگر جانور باؤلہ ہو تو پھر متاثرہ شخص کی زندگی بچانے
والی (Life Saving)ویکسین لگائی جاتی ہے ریبیز بیماری کا شکار عام طور پر
غریب لوگ ہی ہوتے ہیں جو کی ایک ویکسین بھی خرید کر نہیں لگا سکتے اکثر تو
اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ان کے پاس لاہور تک آنے کا کرایہ نہیں ہوتااگر آ بھی
جائیں تو ویکسین کا نام سن کر ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سرکاری سطح جہاں طبی سہولیات کا فقدان ہے وہیں ایک اور مسئلہ بھی در پیش ہے
کہ یہ سنٹر دو بجے کے بعد بند ہوجاتا ہے اسکے بعد مریض کو دیکھنے کیلئے
کوئی بھی موجود نہیں ہوتا ، یہ صورت حال چھٹیوں میں مزید خراب ہو جاتی ہے
اب جانور کے کاٹنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے وہ کسی بھی وقت کاٹ سکتا ہے
لیکن یہاں کسی قسم کی کوئی ایمرجنسی سہولت میسر نہیں ہے ، جہاں تک ریبیز
بیماری سے آگاہی کا تعلق ہے ہو سکتا ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے
بے خبر ہیں ۔ کبھی کہیں کوئی بھی ایسا آگاہی پروگرام منعقد نہیں کیا گیا کہ
عوام کو اس جان لیوا بیماری کے
طریقہ علاج سے آگاہ کیا جائے۔ ایسی صورت حال میں غریبوں کی اس بیماری سے
آگاہی اور علاج کروانے کی صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر
بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو جن ملکوں میں آوارہ جانوروں کا تصور بھی
نہیں ہوتا اور صرف پالتو جانور رکھے جاتے ہیں وہاں پر ریبیز بیماری سے بچاؤ
اور آگاہی کو بہت ذیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس ضمن میں سرکاری اور غیر
سرکاری سطح پر بہت سارے پروگرام بھی شروع کئے گئے ہیں لیکن بہت افسوس ہمارے
ملک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتا ت ہے وہیں ان کے شکار افراد کی تعداد میں
روزبروز اضافہ ہورہا ہے جن کی اکثریت غریب عوام پر مشتمل ہے جہاں ایک طرف
تو علاج کی سہولتیں نا ہونے کے برابر ہیں اور دوسری طرف عوام کو اس بیماری
سے بچاؤ کیلئے آگاہی فراہم کرنے کا کوئی جامع منصوبہ بھی زیر عمل نہیں
ہے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(PMA)اور عوام کے بار بار توجہ دلانے کے
باوجود اس ضمن میں ابھی تک متعلقہ اداروں کی طرف سے خاطر خواہ اور تسلی بخش
اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔
شہباز شریف کے دورِ حکومت میں میں نے بحیثیت میڈیکل افیسر انسٹی ٹیوٹ آف
پبلک ہیلتھ ایک جامع پلان بنا کر دیا جس میں ہر ضلع کی سطح پر " اینٹی
ریبیزسنٹرکا قیام تھا تا کہ عوام کو باؤلے جانوروں کے کاٹے کی صورت میں
فوری علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جائے نیز عوام کو آگاہی فراہم کرنے
کیلئے گاؤں ، دیہاتوں کی سطح پر موبائل ایمبولینس بھیجنا تھا جو وہاں جا کر
آوارہ جانوروں کے متاثرہ کیسز کی نہ صرف نشاندہی کرتے بلکہ موقع پر ہی
ویکسین لگائی جاتی اور ساتھ اس مہلک بیماری سے لوگوں کو آگاہی فراہم کی
جاتی ۔ لیکن صد افسوس کہ دوسرے بہت سے اہم مسائل کی طرح اس کو بھی نظر
انداز کر دیا گیا۔
|