ایک بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مولانانے حکومت
مخالف احتجاج کانام آزادی مارچ کیوں رکھا؟پاکستان پیپلزپارٹی اچھی طرح
جانتی ہے کہ مولانامذہبی سیاستدان ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مولانامذہب
کارڈاستعمال نہ کریں۔مولاناکی سیاست کی بنیادمذہبی طبقات کے سہارے کھڑی
ہے۔پھرجنگ اورمحبت میں سب جائزہوتاہے۔پیپلزپارٹی انتہائی دانشمندانہ سیاست
کھیلتے ہوئے ہرممکن چاہے گی کے آخرتک مولاناکے سامنے مذہب کارڈاستعمال نہ
کرنے کامطالبہ پیش کیے رکھے جبکہ مولانایہ مطالبہ کسی صورت قبول نہیں
کرسکتے یعنی پاکستان پیپلزپارٹی ایک تیرسے دویاتین نشانے لگاناچاہتی
ہے۔پیپلزپارٹی نہیں چاہے گی کہ حکومت کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں بندہوں
جوآنے والے دنوں میں دروازے بن کر کھل بھی سکتی ہیں۔لہٰذاپیپلزپارٹی
مولاناکے آزادی مارچ کی حمایت کرسکتی ہے پردھرنے کی اوپن حمایت کرتے
نظرنہیں آتی۔ دوسری جانب ن لیگ کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس وقت
صرف میاں شہبازشریف جیل سے باہرہیں جنہیں کسی بھی وقت گرفتارکیاجاسکتاہے۔آپ
سمجھ تورہے ہوں گے؟حکومت کیلئے مشکلات پیداکرنے کی کوشش میاں شہبازشریف
کوجیل لے جاسکتی ہے اوروہ اب جیل نہیں جاناچاہتے۔جسے مدنظررکھتے ہوئے میاں
شہبازشریف نے مارچ اوردھرنے کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے سے صحت کی خرابی
کی بنیادپر معذرت بھی کرلی ہے۔کچھ حلقوں کاخیال ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی
اورن لیگ مولاناکے مارچ اوردھرنے میں شامل نہیں ہوناچاہتی جبکہ حقیقت میں
ایسانہیں ہے۔حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مولاناکواتنی ضرورت یامشکل نہیں جتنی
پیپلزپارٹی۔ن لیگ خاص طورپرمیاں نوازشریف اورمریم نواز کودرپیش ہے۔مولانا
گرفتارہیں نہ ہی اُن کابھائی یابیٹاگرفتارہے۔حکومت کیلئے کچھ نرمی دیکھانے
پرمولاناکی مزید عزت افزائی بھی خارج الامکان نہیں۔حالات واقعات بتاتے ہیں
کہ حکومت مخالف سخت احتجاج پیپلزپارٹی اورن لیگ کی اشدضرورت ہے اوران دونوں
بڑی جماعتوں کے پاس دیگرکوئی راستہ بھی نہیں۔تمام ترمشکلات کے
باوجودپیپلزپارٹی کی قیادت وکٹ کے دونوطرف کھلنے کی کوشش میں نظرآتی ہے۔ن
لیگ کے صدراورقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرمیاں شہبازشریف دھرنے یامارچ کی
قیادت ہی نہیں بلکہ کسی بھی قسم کے حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہوتے
نظرنہیں آتے جس کے بعد میاں نوازشریف نے ن لیگ کی جانب سے احسن اقبال کانام
تجویزکردیاہے۔میرے خیال میں میاں نوازشریف کی جانب سے مولاناکواحتجاج کیلئے
ہرقسم کے تعاون اوراحتجاج کی کامیابی کے بعداگلی حکومت میں اہم عہدے جیساکہ
صدرپاکستان بنانے کی پیشکش کردی گئی ہے جس کے بعد مولاناآزادی مارچ
اوراسلام آبادمیں دھرنے کی کال واپس لیتے نظرنہیں آتے البتہ مارچ اوردھرنے
کا مقام اورتاریخ آگے پیچھے ہوسکتی ہے۔کچھ حلقوں کاخیال ہے کہ ابھی کچھ
اورانتظارکیاجائے۔احتجاج کی چوٹ لگانے سے قبل لوہامزید گرم کیاجائے لہٰذا
حکمت عملی تبدیل ہونے کی صورت میں احتجاج کچھ وقت کیلئے منسوخ بھی ہوسکتاہے
پراحتساب جاری رہنے کی صورت میں میاں نوازشریف۔آصف زرداری۔مریم
نوازاورمولانافضل الرحمان کسی قیمت پرحکومت کوزیادہ وقت نہیں دیناچاہیں
گے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے یقینی طورپرممکنہ احتجاجی مارچ
اوردھرناروکنے کیلئے حکمت عملی بنائی ہوگی جس کے تحت آنے والے دنوں میں
مزیدگرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں البتہ ابھی تک مولاناکی گرفتاری کے امکانات
نظرنہیں آتے ہاں اُن کے اردگردموجوداہم ساتھیوں کی گرفتاری ممکن ہے۔یہ توطے
ہے کہ مولانافضل الرحمان میاں نوازشریف اورآصف زرداری کے مکمل تعاون کے
ساتھ احتجاج ضرورکریں گے۔یہ احتجاج کب اورکہاں ہوگایہ کہناقبل ازوقت
ہوگا۔آصف زرداری اورمیاں نوازشریف کے پاس احتجاج ہی واحد آپشن ہے۔ حکومت کی
ناقص کارکردگی اورمہنگائی کے ستائے عوام کی بڑی تعداداپوزیشن جماعتوں کے
احتجاج میں شامل ہوجائے توحکومت کیلئے شدیدمشکلات پیداہوسکتی ہیں جبکہ میرے
ذاتی خیال میں مشکلات کے باوجودحکومت کاخاتمہ نہیں ہوگا۔جمعرات نمازمغرب کے
بعدجب اپنے کالم کی اختتامی سطوررقم کررہاہوں توتوقعات کے عین مطابق
مولانافضل الرحمان نے27 اکتوبر کو حکومت کیخلاف مارچ کا اعلان کردیا
ہے۔مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جلدی
جانے کی غرض سے اسلام آباد نہیں آرہے۔انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں
کہا کہ کسی بھی معاملے پر حکومت سے مفاہمت نہیں ہوگی۔حکومت کو جانا ہوگا۔
مارچ کے راستے میں رکاوٹ ڈالی گئی۔میری گرفتاری ہوئی تو پہلی۔دوسری اور
تیسری سکیم سمیت تمام فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ آزادی مارچ کی تاریخ میں تبدیلی
کا کوئی ارادہ ہے نہ ہی کوئی کہہ رہا ہے۔یعنی یہ طے ہے کہ مولانااحتجاجی
مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد دھرنادینے جارہے ہیں جس کی مکمل
تیاریاں کرلی گئی ہیں۔مولاناکی دوسری۔تیسری اورچوتھی سکیم کی تیاری یعنی
ہرپہلوکومدنظررکھتے ہوئے متبادل حکمت عملی بنائی جاچکی ہے جس کاذکراپنے
گزشتہ کالم(مولانا کاآزادی مارچ)میں بھی کرچکاہوں۔آزادی مارچ کی حتمی تاریخ
کاعلان بظاہرتومولانانے پیپلزپارٹی اورن لیگ کی قیادت کی غیرموجودگی میں
کیاہے پرپیپلزپارٹی اورن لیگ اس احتجاج میں پورے جوش وجذبے کے ساتھ شامل
ہوگی۔اب حکومتی حلقے اپنے آپ کوتسلی دینے کیلئے چاہے کہتے رہیں کہ
مولاناکامارچ یادھرنانہیں ہوگا مولاناکے ارادے پختہ معلوم ہوتے ہیں اورہم
اس حقیقت سے باخوبی واقف ہیں کہ مولانا لاکھوں نہیں توہزاروں ایسے
افرادنکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جوان کے ساتھ کٹ مرنے کیلئے تیارہوں گے۔ن
لیگ کی قیادت وکارکنان خاص طورپرجولوگ نوازشریف۔آصف زرداری اورمریم نواز
کوجیل کی سلاخوں سے آزاددیکھناچاہتے ہیں وہ اس احتجاج میں بھرپورشرکت کریں
گے۔پیپلزپارٹی کی محتاط حکمت عملی کے ساتھ احتجاج میں شمولیت۔ٹیکس ادائیگی
سے خوفزدہ کاروباری طبقے کی شمولیت بھی ممکن ہے۔حکومت کی ناقص معاشی
کارگردگی اورمہنگائی بھی حکومت مخالف احتجاج کوتقویت بخشے گی۔تحریک انصاف
کی اب تک کی حکمت عملی دیکھیں تولگتاہے حکومت ہرصورت احتجاجی مارچ کوشروع
ہونے سے قبل ہی روکنے کی کوشش کرے گی۔حکومت اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج
کوروکنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔احتجاج کاسامناکس حکمت عملی کے تحت کرتی ہے
اور احتجاج کانتیجہ کیانکلے گااس کاحتمی فیصلہ توآنے والاوقت ہی کرے گا۔اس
وقت حقائق یہی کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف۔سابق صدرآصف
زرداری اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور۔مریم نوازسمیت دیگرقیادت کواحتساب کے
شکنجے سے آزادکروانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے پاس آخری آپشن سخت ترین
احتجاج ہی بچاہے
|