۲۰۱۴ کے قومی انتخاب کے بعدصوبائی الیکشن میں بی جے پی
کی کامیابی اور گوپی ناتھ منڈے کا وزیراعلیٰ بن جانا تقریباً طے تھا لیکن
اچانک ایک پراسرا حادثے میں گوپی ناتھ منڈے ہلاک ہوگئے۔ اس حیرت انگیز
سانحہ کی تحقیق ہونی چاہیے تھی لیکن مرکزی حکومت نے دہلی میں رونما ہونے
والے اس اندوہناک واقعہ کو نظر انداز کردیا اور ان کی بیٹی کو ضمنی انتخاب
میں کامیاب کرانے کے بعد سارا معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ گوپی ناتھ منڈے کے
بعد وزارت اعلیٰ کی کرسی سے سب سے بڑے دعویدار مرکزی وزیر نتن گڈکری تھے
لیکن اپنی پارٹی کے سابق صدر سے بلاچوں چرا اطاعت کی توقع ممکن نہیں تھی اس
لیے انہیں کی برادری اور شہر ناگپور سے دیویندر فڈنویس کے گلے میں ور مالا
ڈالی گئی۔ اس طرح شیوسینا کے منوہر جوشی کے بعد ایک نیا نویلا ناتجربہ کار
وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کو میسر آ گیا۔ پانچ سال کے بعد آج جب اس بھولے
بھالے نظر آنے والے براہمن وزیراعلیٰ کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ
شعر یاد آتا ہے؎
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دیویندر فڈنویس نے جس وقت اقتدار سنبھالا ان کے سب سےبڑے حریف ایکناتھ منڈے
تھے ۔ سابق اسمبلی میں بی جے پی اپوزیشن لیڈر اور طاقتور اوبی سی رہنما کو
منانے کے لیے دہلی سے آنے والے مرکزی نگراں جے پی نڈاّ کو ان کے گھر جانا
پڑا تھا۔ ان کے علاوہ مراٹھا لیڈر ونود تاوڑے ، پرکاش مہتا اور پنکجا منڈے
بھی دوڑ میں شامل تھے ۔ اس بار ان چاروں میں سے صر ف پنکجا کو پہلی فہرست
میں جگہ دی گئی۔ وزیراعلیٰ کے ذاتی سکریٹریابھیمنیو پوار کو تو لاتور سے
ٹکٹ مل گیا لیکن کھڑسے کی طرح ۶ مرتبہ انتخاب جیتنے والے چیف وہپ راج پروہت
اور سب سے اچھی کارکردگی دکھانے والے کامٹی کے رکن اسمبلی چیندر شیکھر باون
پھلے کو بھی محروم کردیا گیا ۔ اس بیچ ایکناتھ کھڑسے نے پارٹی کی اجازت کے
بغیر اپنے کاغذات داخل کردیئے رہے ۔ بی جے پی کی آخری فہرست میں ایکناتھ
کھڑسے کی جگہ ان کی بیٹی روہنی کھڑسے کا نام ہے ۔ باپ کے مقابلے بیٹی کو
میدان میں اتار کر ایکناتھ کھڑسے کو پالے سے باہر کرنے کی چانکیہ نیتی
کھیلی جارہی ہے۔ اس میں اگر کامیابی حاصل ہوجائے اور پھر روہنی کامیاب بھی
ہوجائے تب بھی وہ دیویندر فڈنویس کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوں گی ۔
کانگریس پر(اقراب پروری) گھرانے شاہی کا الزام لگانے والی بی جے پی کو یہ
بتانا پڑے گا کہ اسے خاندیش سے ایوانِ پارلیمان میں بھیجنے کے لیے کھڑسے کی
بہو اور ایوان اسمبلی میں کامیاب کرنے کی خاطر ایکناتھ کھڑسے کی بیٹی کے
علاوہ کوئی اور کیوں نہیں ملتا؟ کیا آرایس ایس کے سارے کارکن نااہل ہیں
اور صرف ایک خاندان میں ساری قابلیت جمع ہوگئی ہے۔ کھڑسے نے بغاوت کرکے بی
جے پی پر جو دباو ڈالا اس کا فائدہ ان کو نہ سہی تو بیٹی کو مل گیا لیکن
شرافت سے بیٹھنے والوں کو کچھ بھی نہیں ملا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ بی جے پی
میں شرافت کے مقابلے بغاوت کی قدردانی کی جاتی ہے۔ ویسے باون پھلے کی اہلیہ
نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں ۔ باون
پھلے وزیراعلیٰ فڈنویس کو اپنا بھائی اور نتن گڈکری کو باپ کا درجہ دیتے
ہیں ۔ اب دیکھنا ہے یہ ہے کہ وہ انتخاب کے دوران اپنے بھائی اور باپ کا
ساتھ دیتے ہیں یا اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ ویسے سنگھ
پریوار کے گڑھ ناگپور کے مضافات میں ہندو سنسکار کی حامل بھارتیہ ناری نے
یہ فیصلہ اپنے پتی پرمیشور کی تائید کے بغیر لیا ہوگا یہ سمجھنا مشکل ہے۔
بی جے پی نے تاوڑے کی جگہ بورویولی سے سیوڑی کے رہنے والے سنیل رانے کو
لڑانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ وہی ونود تاوڑے ہیں جنہوں نے چند روز قبل نہایت
بدزبانی کے ساتھ کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان کو مشورہ دیا تھا
کہ ہار کی رسوائی سے بچنے کے لیے کہ وہ انتخاب نہ لڑیں ۔ انہوں نے سوچا بھی
نہیں ہوگا کہ ان کا اپنا ٹکٹ کٹ جائے گا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں خود
احتسابی کررہا ہوں اور پارٹی بھی اپنا احتساب کرے کہ ان کا قصور کیا ہے؟ اب
جبکہ ان کا حساب کتاب چکا دیا گیا ہے اس خوداحتسابی سے کیا حاصل ۔ بہی
کھاتے کے بجائے اگر وہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کر تے تو انہیں پتہ چلتا کہ
پیشواوں نے کس طرح مراٹھوں کو استعمال کرلینے کے بعد ان کو اپنا غلام
بنالیا ۔ اپنی مراٹھا جماعت کو چھوڑ کر براہمنوں کے سنگھ میں جانے والے
انجام اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ونود تاوڑے نے تو خیر بڑے صبر وضبط کا
مظاہرہ کیا مگر پرکاش مہتا کے حامیوں نے ان کے گھر پر جمع ہوکر پہلے تو
آزاد امیدوار کے طور انتخاب لڑنے کا اصرار کیا اور اس دوران جب پارٹی
امیدوار اور ان کی چیلے پراگ شاہ وہاں پہنچے تو ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ اپنے
غم و غصے کا ظہار کرتے ہوئے ان لوگوں نے شاہ کی گاڑی کے شیشے توڑ کر سنگھی
نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال پیش کی۔ پرکاش مہتا ایک زمانے میں ممبئی بی جے پی
کے صدر تھے اور ۶ مرتبہ انتخاب جیت چکے ہیں ۔
ممبئی ہی کے معمر رہنما راج پروہت کا ٹکٹ کا کاٹ کر شیوسینا اور این سی پی
سے ہوکر بی جے پی میں پدھارنے والے راہل نارویکر کو نوازدیا گیا ہے۔ راج
پرہت اسمبلی میں پارٹی کے چیف وہپ (ہنٹر ) تھے لیکن انتخاب سے پہلے وہ خود
ہنٹر کی زد میں آگئے۔ راج پرو ہت نے اپنی زندگی پارٹی کی خدمت میں کھپا دی
لیکن موجودہ صدر لودھا سے ان کے اختلافات ہوگئے۔ اس کے بعد ایک ایسی ویڈیو
سامنے آئی جس میں وہ مودی اور شاہ پر تنقید کرتے نظر آئے۔ بس پھر اس کے
بعد اندھے بھکتوں میں انہیں کیسے برداشت کیا جاتا اس لیے ان کا ٹکٹ کٹنا
تھا سو کٹ گیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے والے
سارے بڑے رہنماوں کو دل کھول کر نوازہ گیا مگر اپنی پارٹی کے لیے خون پسینہ
بہانے والوں کو دھتکار دیا گیا۔
فڈنویس نے جہاں اپنے قابلِ ذکر حریفوں کی سیاسی ارتھی اٹھائی وہیں اپنے
معتمد پارٹی کے صوبائی صدر کوان کی جنم بھومی کولہاپور یا کرم بھومی ممبئی
سے لڑانے کے بجائے پونہ کی محفوظ سمجھی جانے والا کوتھروڈ حلقۂ انتخاب عطا
کردیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس پارٹی کی کامیابی کا اعلان کردیا ہے اس کا صدر
اپنے آبائی وطن میں قسمت آزمائی کی جسارت نہیں کر پارہا ہے۔ دیویندر
فڈنویس نے اپنے راستے کے کانٹوں کو صاف کرنے کی خاطراسی’ رام بان اپائے
کااپیوگ ‘ کیا جو شاہ جی دہلی میں استعمال کررہے ہیں ۔ ۲۰۱۴ میں وزیراعلیٰ
بننے کے بعد ساری وزارتیں تو تقسیم ہوگئیں مگر وزارت داخلہ کا اہم ترین
عہدہ وزیر اعلیٰ نے اپنے پاس رکھا ۔ شیوسینا نے سوچا کہ جب اس کے ساتھ
الحاق ہوگا تو وہ کسی شیوسینک کے حصے میں آئےگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی
قلمدان تو وہ کمان تھا جہاں سے تیر چلا کر حریفوں کو زخمی کیا جاتا تھا ۔
بقول شاعر؎
کوئی سازش یہاں پر چل رہی ہے
محبت دشمنی میں ڈھل رہی ہے
فڈنویس کے نشانے پر سب سے پہلےونود تاوڈے آئے ۔ ان پر بغیر ٹینڈر کے ۱۹۱
کروڈ میں اسکولوں کے لیے آگ بجھانے وا لے آلات خریدنے کا الزام لگا ۔ ان
کی کردار کشی تو ہوئی مگر وزارت قائم رہی اور حسب توقع کلین چٹ مل گئی ۔ اس
کے بعد پنکجا منڈے کو نشانہ بنایا گیا اس لیے کہ نہ صرف ان کے والد بلکہ
ماموں پرمود مہاجن بھی بی جے پی سابق بڑے رہنماوں میں شمار ہوتے تھے اور
ماموں زاد بہن ممبئی سے رکن پارلیمان ہیں ۔ پنکجا پر ۲۰۶ کروڈ کی چکی
(مٹھائی) خریدنے میں ضابطوں کو بالائے طاق رکھنے کا الزام لگا اور اسے
ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالنے کے بعد بخش دیا گیا۔
اس فہرست میں تیسرے نمبر پر سب سے بڑی اسامی ایکناتھ کھڑسے پر یکے بعد
دیگرے تین الزامات لگے ایک بدعنوانی کا تھا دوسرا گاڑی کی خریدو فروخت کا
معاملہ لیکن تیسرا سب سے سنگین الزام داود ابراہیم سے بات چیت کا تھا ۔
وزیراعلیٰ نے اس خبر کے فوراً بعد ایکناتھ سے ان کا عہدہ چھین لیا ۔ آگے
چل کر ان کو بھی کلین چٹ تودی گئی لیکن عہدہ واپس نہیں کیا گیا اور اب تو
ٹکٹ سے بھی محروم کردیا گیاہے ۔ اس قطار میں آخری شکار پرکاش مہتا تھے ۔
ان پر زمین کے دومعاملات میں بدعنوانی کا الزام لگا ۔ انتخاب سے صرف تین
ماہ قبل وزیراعلیٰ نے کابینی عہدوں میں ردوبدل کیا تو پرکاش مہتا کا نام کٹ
گیا۔ مزے کی بات یہ ہے سارے لوگ وزیراعلیٰ کے ایماء پر پھنسائے جاتے تھے
اور وہ خود ان سب کا بچاو کرتے نظر آتے تھے ۔ ان پانچ سالوں میںیہ دیویندر
فڈنویس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اس پر کلیم عاجز کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
(۰۰۰۰۰جاری)
|