جمہوریت کا چوتھا سال اور اینکرز مافیا

یہ حقیقت اظہر من التمش ہے کہ آصف علی زرداری کی صدارت اور یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمی کے خلاف حاسدین نے روز اول سے ہی سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردئیے تھے۔ سیاسی بازیگروں نے غیر جمہوری عناصر کے ساتھ ساز باز کر کے سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ مخلوط اتحاد کا جلد از جلد دھڑن تختہ ہوجائے۔ کسی نے ایک سال بعد حکومت کی تبدیلی کا شوشہ چھوڑا تو کسی نے صدر مملکت کو ایمبولینس میں ایوان صدر سے نکالنے کی پیشین گوئی کی۔ سیاسی نجومیوں نے متعدد مرتبہ تاریخوں کا اعلان کر ڈالا کہ حکومت کی گوشمالی اب چند مہینوں اور دنوں تک محدود ہوچکی ہے مگر وائے حسرت آئے بسا آرزو خاک شد کے مصداق صدر مملکت اور وزیراعظم نے متانت و فراست سے حکومت سیاست اور جمہوریت کو درپیش تمام خطرات کا سامنا کیا کہ مخالفین کی تمام تدبیریں اور چالیں ناکام ہوگئیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کے اینکرز مافیا نے غیر جمہوری عناصر کی حوصلہ افزائی کی۔ صدر مملکت نے چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان سے مسلسل چوتھی مرتبہ خطاب کر کے ریکارڈ قائم کردیا جو جمہوری استحکام کے لئے سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔ گو کہ پاکستان کو معاشی سیاسی داخلی اور خارجی میدانوں میں کئی جان گسل چیلنجز کا سامنا ہے مگر سچ تو ہے کہ صدر کا خطاب ملک و قوم کے لئے نیک شگون ہے۔ مشرف کے گیارہ سالہ دور آمریت کے بعد ظہور پزیر ہونے والی جمہوریت چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہے۔ دوسری طرف سیاسی اداکار ایسے بھی ہیں جنکی آنکھوں میں زرداری کی صدارت ہر وقت کانٹے کی شکل میں چھبتی رہتی ہے جو کسی صورت میں پی پی پی کو اقتدار کی مسند پر نہیں دیکھ سکتے اور یہی نادان اور دل جلے انکا دھڑن تختہ کروانے کا خواب دیکھ رہے تھے مگر سیاسی قلابازوں کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ الیکڑانک میڈیا کے اینکرز مافیا نے آزادی اظہار کے نام پر زرداری کے خلاف ایسی گھناؤنی میڈیا وار شروع کر رکھی ہے کہ انکی چالبازیوں کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے جیسے زرداری کا تعلق کسی دشمن ملک سے ہو۔ ایک اخبار میں اسامہ بن لادن کی تصویر شائع کروائی گئی جسکے سامنے کیمیائی جراثیمی اور ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ تصویر کے نیچے اسامہ بن لادن کی بڑھک درج تھی کہ جس دن موقع ملا امریکہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دونگا۔ ایسی بودی تصاویر کا بیہودہ مقصد یہ تھا کہ مرکزی حکومت اور امریکہ کے مابین شکر رنجی پیدا کی جائے تاکہ پاکستان پر پابندیاں عائد کی جائیں اور پھر انہیں حکومتی ناکامیوں کا رنگ روپ دیا جائے۔اینکرز صاحبان کو داد دینی چاہیے جنہوں نے سفید جھوٹ کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے کہ زرداری نے بینظیر شہید کو خود قتل کروا کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ انکی ایک دلیل یہ تھی کہ بی بی نے زرداری کا یا تو جیل میں رہنا پسند کیا ورنہ بیرون ملک رہنے پر مجبور کیا۔ زرداری کو بی بی کی رحلت کے بعد ہی سرزمین پاکستان پر قدم رنجہ فرمانے کی ہمت ہوئی۔ صدر اور مرکزی حکومت کے خلاف ہر وقت زہر اگلنے والے بیان بازوں کی ایک ریسرچ یہ ہے کہ زرداری نے جعلی وصیت تیار کروا کر بھٹو کی سیاسی میراث پر قبضہ جما لیا۔ صحافت کے انہی اصحاب کہف نے صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی افواہیں اڑائیں۔یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمانی نظام میں مملکت کا اصل سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے اسکی نکیل ایوان صدر کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کے من تن میں بدگمانیوں کی فصل کاشت کرنے کے لئے اسے پی پی پی( ن لیگ ) کے سربراہ کے طور پر مشہور کیا گیا۔ وار آن ٹیرر کے سلسلے میں زردای کو آڑے ہاتھوں لیا گیا کہ وہ امریکہ کی ناز برداری میں مشرف سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ وزیراعظم نے مختلف مواقع پر وار آن ٹیرر کو پاکستان کی جنگ قرار دیا تو ان پر بھی غیر اخلاقی اور غیر آئینی پھبتیاں کسی گئیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سوات کے عسکریت پسندوں کے لشکر کے متعلق گل فشانی کی گئی کہ وہ اسلام آباد کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور کسی لمحے وہ دارالحکومت اور کہوٹہ کی ریسرچ لیبارٹری پر انقلابی پر چم لہرا سکتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ سوات کا فوجی آپریشن ملکی تاریخ کا واحد آپریشن تھا جس میں حکومت وقت کو کامیابی میسر آئی۔1971 کے فوجی آپریشن نے تو پاکستان کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ پاک فوج کو بدنام کیا گیا کہ وہ اپنے ہم وطنوں پر ظلم ڈھا رہی ہے حکومت کو کوسنے دئیے گئے کہ وہ 20 لاکھ ہجرت کرنے والوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دے گی مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ21 صدی کی سب سے بڑی ہجرت کے لاکھوں متاثرین کو تزک و احتشام کے ساتھ واپس گھر بجھوایا گیا۔ ایک طرف حکومت اور عدلیہ کے مابین اختلافات کو خوب ہوا دی گئی تو دوسری طرف حکومت اور پاک فوج کو باہم دست و گریبان کرانے کی ریشہ دوانیاں کی گئیں۔ زرداری کے چوتھی بار خطاب کے بعد تبدیلی کی تمام افواہیں دم توڑ چکی ہیں مگر کبھی کبھار مڈٹرم الیکشن کی شرلی چھوڑی جاتی ہے۔ میڈیا کے افلاطونوں نے اپنے لاہوتی علوم سے ٹرٹراہٹ کی کہ صدر چوتھے خطاب کا ریکارڈ قائم نہیں کرسکتے ۔ صدر نے سکون دلجمعی اور دل چھو لینے والی خطابت و بلاغت سے اپنی تقریر مکمل کی۔ صدر ریاست کا سربراہ ہے جسکی عزت و تکریم قومی فریضہ ہے۔ زرداری دو تہائی اکثریت سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اگر کوئی جج سیاسی سرخیل یا مذہبی رہنما زرداری کے منشور اور انداز حکمرانی سے متفق نہیں تو تب وہ زرداری کی بجائے عہدہ صدارت کی تکریم کرنا سیکھ لیں۔ مملکت خداداد اس وقت معاشی انتظامی خارجی و داخلی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بے روزگاری غربت مہنگائی لاقانونیت کے تندور میں سلگ رہا ہے۔ ppp اس اگ کو بجھانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ پی پی پی اگر عوام کو درپیش مصائب کے ناسور کا کچھ نہ کچھ اندمال کرسکتی ہے تو پھر صدر کا خطاب ساتویں پوزیشن حاصل کرسکتا ہے۔یہی وہ خطرہ ہے جو حاسدین کو بے چین کئے ہوئے ہے اسی لئے وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی خاطر بے چین رہتے ہیں۔ صدارت وزارت عظمی سپیکر قومی اسمبلی اور چیرمین سینٹ کے بااختیار عہدے پی پی پی کے پاس ہیں مگر پھر بھی حکومت بے یار و مدگار دکھائی دیتی ہے۔ اگر ppp عوام کے دکھ دور کرنے میں ناکام ہوئی تو پھر اس آگ کا دھواں ایوان صدارت اور اقتدار کی راہدریوں تک پہنچ سکتا ہے۔ بے نظیر کے دونوں ادوار میں انکے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے تھے مگر اب ایسی کوئی قید نہیں۔ سیاسی افہمام و تفہیم صائب نسخہ ہے جو سیاسی امراض کے لئے تریاق بن سکتا ہے۔پاکستان کی تمام دینی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کی کارفرمائی کے لئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں۔ صدر مملکت کا خطاب پر اعتماد اور دانشورانہ تھا مگر قوم صدر کے چارٹر پر اس وقت یقین کرے گی جب تک وعدے سبز باغ کی بجائے عملی شکل اختیار نہیں کرلیتے۔ پوری قوم اینکرز مافیا سے درخواست کرتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے صدارت کے عہدے کی عظمت کو پامال کرنے سے گریز کریں۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.