اردو سرکاری زبان؟

 قائمہ کمیٹی کا اجلاس ایک منفعت بخش اور صحت مند سرگرمی ہے، اس قسم کی کمیٹیوں کے ارکان کو پڑھے لکھے اور صاحب الرائے تصور کیا جاتا ہے ، ان سے بجا طور پر یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ مطلوبہ مسئلے پر سیر حاصل بحث کر کے کسی معقول اور قابل قبول نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ارکان کی اس ظاہری اور اعزازی پوزیشن کے علاوہ ان کو پر کشش وظیفہ بھی مل جاتا ہے ، کیونکہ وہ اپنا قیمتی وقت قومی معاملہ کو دے رہے ہوتے ہیں، ان کے وقت کی قیمت تو کوئی ادا نہیں کرسکتا ، تاہم ان کو کچھ رقم آنے جانے ، کچھ اٹھنے بیٹھنے، کچھ کھانے پینے اور کچھ اپنا ذہن استعمال کرنے کی مد میں مل جاتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ نشستن، گفتن،(خوردن) اور برخاستن کے علاوہ قوم کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے اجلاس میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے بارے میں بحث کی جائے گی۔ امید کی جاتی ہے کہ مذکورہ کمیٹی کی سرگرمی اور مصروفیت بھی دیگر کمیٹیوں سے مختلف نہ ہوگی۔ بدگمانی سے پرہیز لازم ہے ، مگر حالات سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ، ویسے بھی اردو تو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ، اب اسے سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے،یہ آخری ہچکی کی بات بھی ایک تکلف ہی ہے ، ورنہ معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ تو ہوتا رہا ، مگر اس شدت اور طاقت سے یہ آواز کبھی بلند نہ ہوسکی جو ایوانوں تک بھی پہنچ سکتی۔ اب خود ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی نے اس پر توجہ کی ہے ، تو اک یہی بات خوش آئند ہے ، یعنی ہمیں صرف اسی بات پر ہی دل کو تسلی دے لینی چاہیے کہ یہ کیا کم ہے کہ ہمارے ایوان بالا کے معزز ارکان اکٹھے ہوں اور اردو کو سرکاری زبان بنانے کے مسئلے پر گفتگو کریں۔

مایوسی گناہ سہی ، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے جیسے اکثر لوگ یہ گناہ کرتے رہتے ہیں، وہ کمزور ارادہ ہوں ، یا حالات کے تسلسل کو دیکھ کر کسی نتیجہ پر پہنچ چکے ہوں، یا فیصلہ کرنے والی قوتوں کے رویوں سے انہوں نے اندازہ لگا لیا ہو کہ اصلاح کی گنجائش نہیں۔اردو کی بدقسمتی ہی ہے کہ اس کی واحد سرپرست ریاست پاکستان ہے ، اور اسے اپنے گھر میں بھی کوئی قبول کرنے اور اپنانے کو تیا ر نہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی شرمناک حدوں سے کم ہے ، بعض علاقوں میں تو یہ 30فیصد بھی نہیں۔ اس کے باوجود اردو ایسی زبان ہے جو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، اگر بولنے اور سمجھنے کا تناسب اپنی آقا زبان یعنی انگریزی سے کیا جائے تو شاید ایسے لوگوں کی تعداد دس فیصد کے ہندسے کو بھی نہ پہنچ سکے ۔

اردو کو سرکاری زبان قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہمارے حکمران ہیں، یہ مقتدرہ یا اسی قسم کے دیگر ادارے تو تنخواہ دار ہوتے ہیں، ان کا سچ عموماً وہی ہوتا ہے تو حکومتوں کو پسند ہو۔سابق ڈکٹیٹر نے انگریزی کو مزید مستحکم کیا، انگلش میڈیم کا ایسا جھکڑ چلایا کہ کسی کو اور کچھ بھی سجھائی نہیں دیا، اب سرکاری سکولوں سمیت تمام تر تعلیمی ادارے ”انگلش میڈیم “ ہوچکے ہیں، ان اداروں میں جو مضحکہ خیز صورت حال ہے ، اس کی کسی کو پرواہ نہیں ، کہ نہ استاد کو خود انگریزی آتی ہے ، نہ وہ اس انداز سے انگلش میڈیم پڑھا سکتا ہے، اگر کسی کو آتی بھی ہے تو اس کا لہجہ اور تلفظ کسی لطیفے سے کم نہیں ہوتا۔

حکمرانوں کے علاوہ ہمارے دانشور اور دیگر ”پڑھا لکھا“ طبقہ بھی انگریزی کو زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتا ہے ،کہ اس کے بغیر ہم ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ انگریزی عالمی زبان ہے۔یہ کوئی نہیں سوچتا(اور کوئی نہیں سنتا) کہ بے شمار ترقی یافتہ ممالک میں ان کی قومی زبان ہی سرکاری زبان ہے۔ انگریزی سے آشنا ہونا اور انگریزی کا سمجھ اور بول سکنا اچھی بات ہے ، کہ انسان جہاں بھی جائے اس کے کا م آئے، مگر ایک نیم خواندہ بلکہ ناخواندہ قوم کو براہ راست انگریزی کے چکر میں ڈال دینا دانائی نہیں۔ اردو اب مکمل مظلوم زبان کا روپ دھار چکی ہے، یہ قومی زبان بھی رہ جائے تو غنیمت ہے۔ اب خود اردو اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اس میں بہت سے الفاظ انگریزی کے ہی آچکے ہیں۔ اردو چونکہ آغاز سے ہی مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے ، اس لئے کسی دوسری زبان کو قبول کرنے میں اسے کوئی عار نہیں، مگر جہاں یہ اپنا مدعا خود بیان کرسکتی تھی وہاں سے بھی دستبرداری افسوسناک امر ہے۔ قائمہ کمیٹی والے کوشش کردیکھیں ، ہمارا تو خیال ہے کہ خود اردو کو بچانے کی ضرورت ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.