آج جو لوگ اُچھل اُچھل کر جمہوریت اور دین اسلام کا
نام لے کر اپنی سیاست کو چمکارہے ہیں، دراصل یہی وہ کرپٹ مکھی ، مچھراور
کٹھمل جیسے لوگ ہیں۔ جنہوں نے کئی سالوں سے اپنے سینے ٹھونک کر مُلک کی
ترقی کوبد سے بدتراورستیاناس سے دُگناستیاناس کرنے میں اپنی ساری توانائی
ثوابِ دارین سمجھ کر استعمال کی اور عوام کا خون پسندیدہ مشروب سمجھ کر
چوسااور قومی خزانے کو اپنے آباؤاجداد کی جاگیرسمجھ کر لوٹا،کھایااور اپنی
دولت کو دن دُگنی رات چگنی ترقی دی ہے۔ اور مُلک اور قوم کو اربوں کے قرض
تلے دفن کرکے ابھی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہم بے گناہ اور بے قصور ہیں ۔ووٹ
کو عزت دو ،مگر ہمارے احتساب کے لئے کوئی ہمارے گریبانوں میں ہاتھ نہ ڈالے
، ہم باعزت اور باوقار معزز پاکستانی ہیں۔ اگر ہم نے مُلک کو جہاں لوٹ
کھایا ہے۔ تو وہیں ہم نے روپے میں چونی برابر غریب عوام کی دادرسی بھی تو
کی ہے ۔ہم بے خطا بے قصور ہیں ۔قوم ہمارے احتساب کو سڑکوں پر نکل کرہمیں
بچائے۔ہمارا ساتھ دے اور ہمیں احتسابی عمل سے نجات دلانے میں ہماری ہر کال
کا انتظار کیا کرے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ حیرت ہے کہ اَبھی اِن
قومی لٹیروں کے پیچھے مفلوک الحال عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو
بیتاب ہے۔ حالاں کہ 71سال سے یہی وہ قومی لیٹرے اور کرپٹ عناصر ہیں۔ جنہوں
نے پاکستانی عوام کو غلام اِبن غلام ابنِ غلام بنائے رکھا۔ اور اِن کے
بنیادی حقوق غضب کئے رکھے ۔یوں یہ توخود امیر سے امیر تر ہوتے رہے ۔مگر
غریب بیچارے غریب تر ہوتے چلے گئے ۔اَب پتہ نہیں کب میرے دیس کے غریبوں
کوہوش آئے گا۔ جو اپنے قومی لٹیروں کے پیچھے غلام بن کر ہاتھ باندھے گھومنے
سے باز آئیں گے۔ اور اپنی آئندہ کی نسلوں کو کرپٹ عناصر سے پاک کرنے کے لئے
کمر بستہ ہوں گے۔
سُنا ہے کہ ماہِ رواں کی 27تاریخ کو مولانافضل الرحمان آزادی مارچ کے نام
پراپنے لاؤلشکر کے ساتھ اسلام آباد فتح کرنے کے لئے نکلنے والے ہیں۔سمجھ
نہیں آرہاہے کہ یہ جن کرپشن زدہ بیمار بھیڑوں کو احتساب کے شکنجے سے بچانے
کے لئے اسلام آباد میں گھمسان کا رن چھیڑنے جارہے ہیں۔کہیں اِن خارش زدہ
کرپٹ بیمار بھیڑوں کے خطرناک جراثیم اِنہیں بھی کسی کرپشن کی لپیٹ میں نہ
لے لیں۔ یوں مولاناجن بیمار بھیڑوں کو بچانے نکلیں گے ۔اُلٹا اِنہیں ہی
لینے کے دینے نہ پڑ جائے۔ کیوں کہ عموماََ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو بیمار
بھیڑوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ بھی بیمار ہوجاتاہے۔میرا یہ کیسا مُلک ہے؟ کہ
جس میں چور دوسروں کو چورسمجھتے ہیں۔اور ڈکیت سامنے والے کو بڑا ڈکیٹ کہتا
نہیں تھک رہاہے۔ سارے بڑے کرپٹ خود کو معصوم اورکسی کئی دِنوں کے بھوکے ایک
روٹی چور کو مُلک اور قوم کے لئے خطرناک قرار دلاکر اِسے سزائے موت دلانے
کے لئے تحاریک چلاتے ہیں۔ مگرخود 100چوہے کھا کر بھی حاجی کہلانے پر
بضدہیں۔ یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جس نے بائیس کروڑپاکستانیوں میں سے انگنت
باشعور محب وطن پاکستانیوں کو تذذب میں مبتلا کردیاہے۔
اِن دِنوں مُلکی سیاست میں کراچی سے کشمور تک المیوں پہ المیہ جنم لینے کا
سلسلہ زوراور شور سے جاری ہے۔ ایک طرف حکومت اور اِس کے اتحادی ہیں۔ اور
دوسری جانب اپوزیشن اور اِس کے حواری ہیں۔غرض یہ کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے
خلاف زہریلی زبان اور تلخ جملوں کے استعمال میں بازی لے جانے کے مقابلے میں
ہر حد پار کرتے جارہے ہیں۔ اپوزیشن تو پچھلے انتخابات میں اپنی ہار کو
ماننے کو ابھی تک تیارہی نہیں ہے۔ اپنی اِسی سُبکی پر یہ ہر وہ قدم اُٹھانے
اور مولانا کو اُکسا کر ناقابلِ تلافی قدم اُٹھوانے سے بھی رکنے کو
تیارنہیں ہے ۔جس سے لولی لنگڑی جمہوریت کو سِوائے نقصان پہنچنے کے کسی کے
ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ یعنی کہ کسی کی ذراسی بھی غلطی کی وجہ سے اپوزیشن کے
ہاتھ سِوائے پچھتاوے اور کفِ افسوس اور منہ چھپانے کے کچھ بھی نہیں آئے
گا۔کوئی خواہ کتنی ہی حکومت کے خلاف تحاریک چلائے اورسالوں کے دھرنے دے۔مگر
حکومت کسی کے دباؤ اور دھمکی میں نہیں آنے والی ہے۔ لہذا ضرورت اِس امر کی
ہے کہ میرے مُلک کے سارے کرپٹ اور اِن کے اِدھر اُدھر کے مولانا جیسے دوست
، یار اور چیلے چانٹے سب خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔ کیوں کہ گزشتہ دِنوں
وزیراعظم عمران خان نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران ایک مرتبہ
پھر اِس عزم کو دہراتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’آپ نے وزارتی سطح کے 400افراد
کو سزائیں دے کر جیل بھجوایا، کاش میں بھی پاکستان میں 500کرپٹ لوگوں کو
جیل بھیج سکتا ‘‘ اگرچہ اِس موقع پراُنہوں نے انتہائی ِ دُکھ بھرے پچھتائے
ہوئے لہجے میں افسوس سے کہاکہ’’ہمارے نظام میں کرپشن روکنا ایک مشکل اور
پیچیدہ عمل ہے‘‘ مگر اگلے ہی لمحے اُمید کے ساتھ بولے کہ ’’ لیکن ہماری
حکومت اِس پر کام کررہی ہے۔ پاکستان میں کرپشن ہے۔ پاکستان چین سے سیکھ
رہاہے۔ گزشتہ پانچ سال میں چین نے کرپشن کے خاتمے کے لئے وزارتی سطح کے
چارسو افراد کو سزائیں دے کر جیلوں میں ڈالا ہم بھی اپنے بدعنوان افراد کے
خلاف ایسی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارا نظام سست ہے۔ ہمارے یہاں جس
کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں آتی ۔جبکہ سُرخ فیتہ کاروبار اور ترقی کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘وزیراعظم افسوس اور اُمید کے ملے جلے لہجے میں
بہت کچھ کہہ گئے۔
معذرت قبل اَز گف ،میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کچھ عرصہ پہلے تک توباکثرت یہ
سُننے میں آتارہا کہ وزیراعظم مُلک سے بڑے چھوٹے5000ہزار کرپٹ افراد کو
تاعمر جیل میں ڈال کر چکی پسوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر اَب جبکہ رواں
حکومت کو اقتدار ملے 13ماہ ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا مُلک سے پانچ
ہزار کرپٹ عناصر کو نشانِ عبرت بنانے کا ارادہ کم ہوکر 500افراد تک کیوں
آگیاہے؟ کیا باقی کے 4500کرپٹ افراد کا کڑااحتساب ہوگیاہے؟ کیا اِنہیں
حکومت نے اپنے وعدے اور دعوے کے مطابق عبرت ناک سزائیں دلوادی ہیں ؟یا اَب
وزیراعظم کی اگلی حکمت عملی اِن پانچ سو افراد کے گرد گھومے گی ؟ جن
500افراد کا یہ چین میں تذکرہ کرچکے ہیں ؟ کیا وزیراعظم کو یقین ہے کہ صرف
پانچ سو افراد ہی ہیں۔ جنہوں نے 71سال میں مُلک کو لوٹ کھایاہے اور عوام کے
بنیادی حقوق غضب کرکے مُلکی ترقی اور خوشحالی کا بیڑاغرق کیا ہے؟اگر ایسا
ہے تو پھر جلد ازجلد وزیراعظم عمران خان کسی مولوی یا مولانا کے کسی آزادی
مارچ کے دباؤ میں آئے بغیر اِن پانچ سوکرپٹ افراد کا ہی حقیقی معنوں میں
کڑااحتساب کرڈالیں۔جنہیں وزیراعظم مُلک اور قوم کے لئے بڑا کرپٹ سمجھتے
ہیں۔ ورنہ کہیں بعد میں وزیراعظم کے دل میں مفاہمتی سیاست گھر کرجائے۔ اور
یہ پانچ سوافراد میں بھی کمی کردیں ۔اور صرف پانچ ننگے بھوکے، روٹی
چورغریبوں کوکرپٹ افراد کہہ دیں۔ اور اِن بھوکے معصوموں کاکڑے احتساب کا
ڈنکا پیٹیں کہ لو ہم نے اپنے وعدے اور دعوے کے مطابق کرپٹ افراد کا
کڑااحتساب کردیاہے۔ (ختم شُد) |