آزاد کشمیر کا مظفر آباد ڈویژن 1947ء سے قبل وادی کشمیر
کا حصہ تھا ، میر پور جموں میں اور پونچھ کا تقریبا آدھا ضلع آزاد کشمیر
میں شامل ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کو انڈیا میں شامل کرنے کے 5 اگست کے اقدام کے
بعد سب کی توجہ اس جانب رہی کہ پاکستان اس کے جوا ب میں کس ردعمل کا مظاہرہ
کر تا ہے۔ چین کی مدد سے سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا اور اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی
کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کاروں کی کسی کاروائی کے بہانے آزاد
کشمیر،گلگت بلتستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ چکوٹھی کے راستے سیز فائر لائین(
ایل او سی) عبور کرنے کے لئے لبریشن فرنٹ کے مارچ کے سیاسی اقدام کووزیر
اعظم عمران خان نے انڈیا کے بیانیہ کی مدد قرار دیا۔تاہم آزاد کشمیر میں ہر
مکتبہ فکر کی طرف سے سیز فائر لائین عبور کرنے کے مارچ کی حمایت کی جا رہی
ہے۔یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان انتظامیہ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں آزاد
کشمیر کے عوام کی بھی خواہشات ، رائے اور توقعات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
آزاد کشمیر میں چند ہفتے قبل آل پارٹیز کانفرنس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر
راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیز فائر
لائین عبور کرنے کا اعلان وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر روک دیا گیا اور
اس کے بعد آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی دھماکہ
خیز صورتحال کے پیش نظر کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ سکی۔ اس صورتحال میں
یہ بھی کہا جانے لگا کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں، کشمیر کاز سے متعلق
پاکستان کی کمزوریوں کے'' اعلانات ''کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آزاد کشمیر کے سیاستدانوں میں یہ خوف بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کی کشمیر
کاز کے حوالے سے ہونے والی کسی کوشش کو ان کے خلاف کسی بھی قسم کے'' سرکاری
الزام'' کی صورت بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی
ہنگامی صورتحال کی کئی ہفتوں کی طوالت کے باوجود آزاد کشمیر کی سیاسی
جماعتیں اپنے کردار کے تعین اور اس کی ادائیگی میں ناکام نظرآ رہی ہیں۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے اس طرح کی کوششیں کی
جا رہی ہیں کہ سیاسی اور سفارتی حوالوں سے ، کشمیریوں کی نمائندگی کے طور
پر آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے متحرک اور موثر لائحہ عمل کے مطابق معیاری
اقدامات کئے جائیں۔ تاہم اس طرح کے تمام اقدامات کے حوالے سے وزیر اعظم
آزاد کشمیر، آزاد کشمیر حکومت، اسمبلی کو '' فری ہینڈ'' حاصل نہیں ہے بلکہ
کشمیر کاز سے متعلق ان اہم فیصلوں کے لئے وفاقی حکومت اور دفاعی ادارہ کی
رضامندی ضروری ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں
آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق '' مشیر رائے شماری'' کے اہم عہدے کے لئے
موزوں شخص تلاش کرنا ہے۔ کشمیر لبریشن سیل کے معیار،استعداد کار اور دائرہ
عمل میں نمایاں بہتری سمیت مختلف اقدامات اس حوالے سے زیر غور ہیں جن میں
کشمیر کاز کے مختلف شعبوں سے متعلق موثر کام کرنے کی صلاحیت والی شخصیات سے
استفادہ بھی شامل ہے۔آزاد کشمیر حکومت کے ان اقدامات کو موثر بنانے کے لئے
اس حوالے سے اچھا بجٹ فراہم کیا جانا ناگزیر ہے ،ورنہ یہ تمام عمل ہی غیر
موثر ہوتے ہوئے محض ایک علامتی طور پر ہی سامنے آ سکتاہے، جس سے سیاسی و
سرکاری ضمیر تو مطمئن ہو جائیں لیکن اس کا کشمیر کاز کو کوئی فائدہ نہ ہو
سکے۔
چند ہی سال قبل تک آزاد کشمیر کا بجٹ اربوں میں تھا جو اب سوا کھرب کے قریب
پہنچ چکا ہے۔ ماضی کی طرح ترقیاتی بجٹ تقریبا بیس فیصد اور غیر ترقیاتی اسی
فیصد ہے۔ اگر آزاد کشمیر حکومت کشمیر کاز سے متعلق اپنے دائرہ کار کی ذمہ
داریوں کی ادائیگی کے لئے پانچ سے دس ارب روپے فراہم کر سکے تو ایسا کرنا
کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر کے اخلاص اور کردار کی ادائیگی میں موثر ہو
گا۔ایسا کرنے سے وفاقی حکومت اور دفاعی ادارہ پر ایسا دبائو ہو سکتا ہے کہ
آزاد کشمیرحکومت کو کشمیریوں کی نمائندگی سے متعلق اقدامات کی اجازت،اختیار
اور وسائل فراہم کئے جائیں۔
پاکستان حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر میں کشمیرکاز سے متعلق کسی سیاسی اقدام
کو ''جائز یا ناجائز'' قرار دینے کا روئیہ دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔اگر
موجودہ سیز فائر لائین مارچ میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھر
پور شمولیت ہوتی اور پاکستان حکومت کی طرف سے غیر ملکی سفارت کاروں کے بڑے
گروپ اور غیر ملکی میڈیا کو کشمیریوں کے جذبات پر مبنی اس سیاسی اقدام کا
چکوٹھی میں ہی دورہ کرانے کا اقدام کیا جاتا ،تو اس سے کشمیر کاز کو عالمی
سطح پر بہت اچھے انداز میں نمایاں کیاجا سکتا تھا۔
بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں کہ آزاد کشمیر میں سیاسی اور سرکاری سطح پر
کچھ نہیں کیا جا رہا ، بلکہ اس طرز عمل سے مستقبل قریب میں ہی ،آزاد کشمیر
میں غیر متوقع صورتحال درپیش ہو سکتی ہے۔ عام لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ دو
ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک پاکستان حکومت کچھ نہ کرنے کی
حکمت عملی اپنا چکی ہے اور آزاد کشمیر کو بھی ایسی پابندیوں کا شکار کیا جا
رہا ہے کہ وہ کشمیر کاز کے حوالے سے اپنی سیاسی ذمہ داریاں پوری نہ کر
سکیں، تو اس سے آزاد کشمیر میں عوامی سطح پر ردعمل کی صورتحال پیدا ہو سکتی
ہے۔ یہ ردعمل مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے اور یہ صورتحال ہم آہنگی اور
بھارئی چارے کے حوالے سے بھی نقصاندہ نتائج پر منتج ہو سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے اقدامات کے جواب میں پاکستان کی انتظامیہ اپنی
بے بسی کا کھلا اظہار کر چکی ہے ، تاہم آزاد کشمیر میں کشمیر کاز کے مفاد
پر مبنی اقدامات کرنے میں پاکستان انتظامیہ بالکل بھی بے بس نہیں ہے ۔
کشمیری حلقوں کے مطابق آزاد کشمیر میں کشمیر کاز کے پیش نظر اہم فیصلے کرنا
خود پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے اور ایسا نہ کرنے کی پالیسی پر عمل
پیرا رہنا خود پاکستان کے لئے مختلف نوعیت کے سنگین خطرات کا موجب ہو سکتا
ہے۔ |