امام انقلاب سیاست کا تاجدار فقیہ امت مولانا فضل الرحمان
صاحب اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے اوائل میں ایک فقیدالمثال احتجاج کرنے
جارہے ہیں بلکہ اب تو سمجھو کہ جاچکے ہیں اس بات سبھی کو اندازہ ہے کہ
مولانا کی آمد بزیراعظم سمیت کئی لوگوں کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوگی اس
لئے لائے گئے اور لانے والے انتہائی پریشان ہیں تحریک انصاف کے عدہ داران
سے لے کر سوشل میڈیا پر تہذیب سے عاری وکرز تک جو لوگ پہلے مولانا کی ذاتی
کردار کشی کررہے تھے آج مولانا کے پاؤں پکڑنے میں اول اول نظر آتے ہیں منت
ترلوں سے لیکر دھمکیوں تک اور سعودیہ سے لے کر افغانستان تک ہر ایک سے
سفارش کرواچکے مگر مولانا ہے کہ اپنے مؤقف سے ایک انچ پٹنے کو نہیں۔
لفافہ پرست صحافیوں کو لیاگیا اور کردارکشی کی گئی بات نہ بنی تو لفافہ
برادران مولانا کے گن گانے لگے اور یہ گردان دہرائی گئی کہ مولانا کو دھرنے
کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی حکومت گرجائے گی یہ اس لئے کہ جمعیت کے کارکن کچھ
سست ہوں مگر یہ حربہ جانبر نہ ہوسکا
دشت تو دشت کارکن تو دریا میں بھی کود پڑے
قبل کچھ زرخریدوں کو ساتھ لیا گیا مگر وہ زرخرید اپنی ہی عزت نیلام کرگئے
جس کو دنیا سنتی تھی اب اس کو تحریک نا انصاف بھی نہیں سنتی جس کے کرتوت
دنیا کو نظر آئے اور علماء کے پیچھے چھپ کر اس نے پردہ نشینی اختیار کی وہ
بھی بےپردہ ہوگیا اور رہی بات دس پزار ماہانہ پر نوکری کرنے والوں کی وہ تو
بیچارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مولانا کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آگئے ارے بھائی یہ کیا ہوا بقول عمران
نیازی مولانا کی سیاست ختم ہوچکی مولانا ایک سیٹ کا بھوکا ہے مولانا کرسی
کے پیچھے بھاگتا ہے مولانا کی ذات پر کیچڑ اچھالے گئے اب اسی مولان کی قدم
بوسی کا کیا مطلب؟
علماء دیوبند کے سرخیل حضرات کے پاس گئے طلباء دین متین کو ایوارڈ دئے گئے
سوشل میڈیا پر واہ واہ ہوئی مگر جب حضرات علماء سے مولانا کو رام کرنے کی
التجا کی تو مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا میاں ہم اپنے دستور سے ہٹ
نہیں سکتے ہمارے اکابر کا فیصلہ ہے کہ مولانا کا ساتھ دو
جب سارے در بند ہوئے تو مذاکرات پر اتر آئے جناب اس کو مذاق رات کہتے ہیں
|