ایک مرتبہ کراچی سے دوحہ، قطر جانے والی پرواز میں سوار
ہو کر جب ہم اپنی نشستوں تک پہنچے جن میں سے دو کھڑکی کے ساتھ تھیں تو وہاں
اُنہی میں سے ایک پر ایک نوجوان پہلے سے براجمان تھا جو اپنے حلیے اور لباس
سے کوئی غریب دیہاتی محنت کش معلوم ہو رہا تھا غالباً اپنی چھٹی گذار کے
واپس ملازمت پر جا رہا تھا ۔ ہم نے اسے اٹھ کر اپنی سیٹ پر جانے کے لئے کہا
مگر اس نے انکار کر دیا اور وہیں بیٹھنے پر مصر رہا ۔ مجبوراً ہم نے ایر
ہوسٹس کو بلا کر صورتحال سے آگاہ کیا مگر وہ اس کے کہنے سے بھی نہیں مانا
اور بضد رہا کہ اسے وہیں بیٹھنے دیا جائے ۔ تب ایر ہوسٹس نے اسے سیکیورٹی
سٹاف کو طلب کرنے کی وارننگ دی تو وہ بہت اُترے ہوئے منہ کے ساتھ وہاں سے
اٹھ گیا اور پھر اپنی سیٹ پر بیٹھا ۔ ہمیں اس پر رحم تو بہت آیا مگر ہم بھی
کیا کرتے ہمارے ساتھ بچے بھی تھے ہم کو تو اپنی سہولت دیکھنی تھی نا کہ ایک
اجنبی انجان مسافر کے ساتھ مروت ۔
اس واقعے کو دس برس بیت چکے ہیں مگر آج تک ہمیں اس لڑکے کی وہ حسرت زدہ سی
نگاہیں نہیں بھولتیں آج تک ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ کیا تھا اگر ہم اسے اپنی
سیٹ پر بیٹھا رہنے دیتے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کا پہلا فضائی سفر ہو اور
اسی بناء پر وہ قواعد و ضوابط سے واقف نہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ کھڑکی کے ساتھ
والی سیٹ پر بیٹھنا اس کا خواب ہو جو ہماری ذرا سی فراخدلی سے پورا ہو سکتا
تھا ۔ مگر افسوس کہ ہم نے اتنی چھوٹی سی بات کے لئے اپنا دل بڑا نہیں کیا
یہ خلش آج بھی باقی ہے (رعنا تبسم پاشا)
|