پڑوسی ملک کے ایک صوبے سے تعلق رکھنے والی ایک مخصوص
برادری خاصی بڑی تعداد میں پاکستان میں بھی آباد ہے ۔ ہمارا کئی گھرانوں سے
میل جول تھا ان کے ہاں ہونے والی تقریبات اور شادی بیاہ وغیرہ میں شرکت کا
اتفاق بھی ہؤا اور ان کے رسم و رواج کو بھی جاننے کا موقع ملا ۔ ان کا ایک
رواج ہمیں بہت اچھا لگا وہ کسی بھی عورت کو بیوہ نہیں رہنے دیتے تھے ۔ کوئی
شخص اگر جواں عمری میں کسی حادثے یا بیماری یا طبعی موت کے نتیجے میں وفات
پا جاتا تھا تو اس کی بیوہ کا بعد عدت کے گھر یا خاندان میں جہاں کوئی میل
جوڑ بنتا تھا تو اس کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا جاتا تھا ۔ جواں سال بیواؤں کے
ساتھ ساتھ خاصی عمر رسیدہ عورتوں کو بھی اگر ممکن ہوتا تھا کہیں کوئی
گنجائش نکلتی تھی تو نکاح یافتہ ضرور کر دیا جاتا تھا اور یہ فیصلہ ان پڑھ
بزرگ کیا کرتے تھے ۔
ایک مرتبہ اسی برادری کے ایک تقریباً پچھتر سالہ بزرگ کا انتقال ہو گیا جس
کی تمام اولادیں شادی شدہ اور بال بچے دار تھیں ۔ گھر میں اس کا ایک چھوٹا
ساٹھ سالہ بھائی بھی مقیم تھا جس کی زوجہ کا کچھ سال قبل انتقال ہو چکا تھا
اور ان کے بھی تمام بچے اپنے اپنے گھر بار کے تھے ۔ بزرگ مرحوم کی بیوہ کی
جب عدت پوری ہو گئی تو خاندان ہی کے دیگر بزرگوں نے طے کیا کہ اس کا نکاح
گھر میں موجود دیور سے پڑھوا دیا جائے ۔ بےچاری تقریباً ستر سالہ بزرگ
خاتون اس فیصلے سے بھونچکی رہ گئی اس نے بہت احتجاج کیا مگر اس کی ایک نہ
چلی کیونکہ اس کی اپنی تمام اولادیں اس فیصلے پر متفق تھیں وہ بھی یہی
چاہتی تھیں کہ ماں ان کے چاچا کی زوجیت میں آ جائے اور پھر وہ دونوں چاہے
اسی گھر میں یا اپنے جس بھی بیٹے کے ساتھ چاہیں رہیں ۔ ایکدوسرے کا سہارا
بننے اور زندگی کو آسان بنانے کی واحد صورت یہی تھی کہ ایک نامحرم رشتے کو
شرعی جامہ پہنا دیا جائے ۔ سو ستر سالہ بڑی بھاوج کا اپنے ساٹھ سالہ دیور
کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا گیا جو اسے بھابھی سے زیادہ اپنی ماں کا درجہ دیا
کرتا تھا ۔
آج ہمارے ہاں کسی عورت کی طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تو اس کے نکاح
ثانی کی بات کسی گالی یا گناہ سے کم نہیں لگتی ۔ نا ہی اس کے لئے کوئی رشتہ
آسانی سے دستیاب ہوتا ہے ۔ اسی طرح کوئی ادھیڑ عمر رنڈوا شخص جو استطاعت
رکھتا ہے اور اولاد کے فرائض سے تقریباً فارغ ہو چکا ہے عقد ثانی کی خواہش
کا اظہار کر بیٹھے تو اس کی اپنی پڑھی لکھی اولاد کسی سیسہ پلائی دیوار کی
طرح سینہ تان کر سامنے آن کھڑی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی ماں کی جگہ کسی دوسری
عورت کو دینے کے لئے تیار نہیں ۔ صاف یہ نہیں کہتے کہ باپ کے مال اور وراثت
میں اب کسی اور کی شرکت گوارا نہیں (رعنا تبسم پاشا)
|