فی زمانہ احتجاج،احتجاجی تحاریکیں،دھرنے اور مارچ سب
مفادات کے حصول کا کھیل ہوتے ہیں۔بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ جمہوری
عمل میں دھرنے کو ماسوا بدنامی کچھ اور نہیں ملا۔مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے
کہ جموریت کا ملک میں گلا دبانے والے خود جمہوری لوگ ہیں۔وگرنہ جمہوریت اور
جمہوری طرز کی حکومت میں جمہوری اقدار بچاؤ مہم چہ معنی۔یعنی زخم خود ہی
دئے اور خود ہی گلہ دینے لگے۔میرے خیال میں جمہوری اقدار کی بحالی اور
جمہوریت بچاؤ مہم دراصل مفادات کا بچاؤ اور کرپشن بچاؤ مہم ہوتی ہے وگرنہ
ہمارے سیاستدانوں کو یہ چاہئے کہ ہر اس جمہوری عمل میں حصہ لیں جو ملکی
مفادات ،وفاداری اور بہتری کے لئے ہو خواہ ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا
اختلاف سے۔مولانا فضل الرحمن بھی آجکل کیا جب سے الیکشن میں اپنی نشست ہارے
ہیں ،مدارس کے طلبا،حزب مخالف اور اپنی جماعت کے راہنماؤں کو اس بات پر
آمادہ کرنے کے درپے ہیں کہ حکومت کو ناکام کرنے کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈہ
استعمال کیا جائے تاکہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرنے سے قبل ہی گھر
چلی جائے،اس سلسلہ میں انہوں نے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا بھی اعلان کردیا
ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا ڈی چوک کس منہ سے دھرنا دینے جا رہے ہیں
جبکہ وہ خود عمران خان کے دھرنے کے خلاف تھے،پھر اس دھرنے کا جواز کیاہے؟یہ
تماشا کیوں لگانے جا رہے ہیں جبکہ وہ خود ایسے غیر جمہوری روایات کے خلاف
ہیں،ان کی حزب اختلاف میں کیا پوزیشن ہے،کیا دھرنا پی ٹی آئی کی حکومت کو
کمزور کر کے گھر بھیجنے میں کامیابی کی ضمانت ہوگا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا
جواب بھی تقریبا ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے کہ یہ پل دو پل کی بات نہیں
ایک سال کا قصہ ہے کہ جب سے مولانا اپنی خاندانی نشست ہارے ہیں ایک پل چین
سے نہیں بیٹھے،کبھی احتجاج،کبھی حزب اختلاف کی گود میں تو کبھی مذہبی کارڈ
اور مدارس کے طلبا کے استعمال کی دھمکی دیتے ہی دکھائی دئے ہیں۔مولانا اگر
سیاسی فہم وفراست اور جمہوری سوچ کے متحمل فرد ہوتے تو انہیں یہ سب کرنے کی
ضرورت نہ ہوتی ان کے اپنے بیانات جو کہ وہ عمران خان کے دھرنے دوران جاری
کئے گئے کافی تھے۔
الیکشن 2013 کے بعد جب حسب سابق وعادت اس بات کا شور،ہنگامہ اور واویلا مچا
کہ الیکش میں منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے لہذا میرا (عمران خان)مطالبہ
یہ ہے صرف چار حلقوں کی پھر سے گنتی کروا دی جائے،سابق حکومت نے جب اس
سلسلہ میں پس و پیش سے کام لیا تو عمران خان اپنے دیگر ساتھیوں اور عوامی
طاقت کے ساتھ دھرنا دینے کے لئے ڈی چوک نکل پڑا،یہ دھرنا 126 دن تک طول پکڑ
گیا۔ان 126 دنوں میں ہر دھرنا مخالف اور حکومتی ایوانوں پر متعین شخص نے
دھرنے کے خلاف بیان بازی کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہوئے استعمال کیا جن میں
سے مولانا فضل الرحمن بھی ایک تھے،تاریخ کے آئینے میں ان کے بیانات جو
انہوں نے مختلف پریس کانفرنسز،پارلیمنٹ اور ٹی وی پروگرامز میں دئے قارئین
کی یاددہانی کے لئے عرض ہے۔مولانا کہا کرتے تھے کہ دھرنے اور مارچ عمران
خان کی مضحکہ خیز سیاست ہے،دھرنے مارچ اعلانات کی کوئی اہمیت نہیں پی ٹی
آئی اوچھے ہتھکنڈوں سے جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لہذا حکومت خوف
زدہ نہ ہو،چار حلقوں میں گنتی مضحکہ خیز ہے دیکھنا یہ ہے کہ پس پردہ حقائق
کیا ہیں،عدلیہ دباؤ ایک سازش ہے،دھرنوں کے ذریعے تبدیلی لانے والے ملک میں
انارکی پھیلا رہے ہیں،حکومت کو مٹھی بھر افراد سے بلیک میل نہیں ہونا
چاہئے،سیاسی قوتیں یکسو ہو کر ملک بچائیں،منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی
کوشش کی جارہی ہے،بغاوت کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے،نظام کے خلاف بات کرنے
والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں اور پھر اسمبلی میں کی جانے والی
مولانا کی وہ تقریر جس میں انہوں نے ایسے عناصر کو سزائیں دینے کی باتیں
بھی کیں،اور سب سے آخر میں کہ میڈیا نے ہر طرف آگ لگارکھی ہے،اگر میڈیا کو
24 گھنٹے کے لئے بند کردیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ ہیں وہ خیالات جن کا اظہار مولانا کبھی عمران خان کے دھرنے کے خلاف کئے
کرتے تھے۔اس کا ہرگز مطب یہ نہیں میں اس حق میں ہوں کہ ریاست کے اندر ایک
ریاست قائم کر دی جائے یا دھرنا دینا اور اس کے منفی رجحانات سے آنکھیں بند
کر لی جائیں،یقینا مارچ اور دھرنے جمہوری عمل میں رکاوٹ ہے جسے کسی طور بھی
قانونی قرار نہیں دیا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کا ڈی چوک میں
آنا غیر قانونی،غیرآئینی اور غیر جمہوری تھا تو پھر مولانا صاحب کس منہ سے
ڈی چوک تشریف لے جا رہے ہیں؟
|