مولانا کا آزادی مارچ

 مملکت خداداد ایک بار پھر دھرنا سیاست کی نظر ہونے والا ہے۔ وقت کی نبض پر نظر رکھنے والے سیانے مولانا کا مذاق اڑاتے رہ گئے اور مولانا نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ مولانا کو ہلکا لینے والے اب اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کریں یا ذہنی بلوغت کے لیے مولانا کی سیاسی اکیڈمی جوائن کریں۔ کیوں کہ مولانا فضل الرحما ن سربراہ جے یو آئی نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگرکالج اور یونیورسٹی کے طلباء عمران خان کے دھرنے میں شرکت کر سکتے ہیں تو مدارس کے طلباء بھی مولا ناکے آزادی مارچ میں شرکت کر سکتے ہیں۔؟ اور مذہب کارڈکے استعمال پر مولانا نے کسی صحافی کے جواب پر کہہ ڈالا کہ اگر ہم مذہب کارڈ استعمال کرتے ہیں تو عمران خان نے بھی تو جنرل اسمبلی میں مذہب کارڈ کا سہا را لیا ۔

ا حتجاج اور اختلاف رائے ہر پاکستانی کا Fundamental right ہے جسے اس بار مولانا ایکسرسائز کرنے جا رہے ہیں۔ موصوف کی رائے میں مولانا ایک کامیاب سیاستدان ہیں جو بوقت ضرورت سیاست کے اتار چڑھاؤ اور مہروں کو استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔ اور ایسا ہو بھی کیوں نا کہ وہ سیاست کے باب میں شاطردماغ زرداری کے لیے بھی معمار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا سندھ سے اپنے آزادی مارچ کا آغاز کر رہے ہیں ۔مولانا سکھر میں پہلا پڑاؤ ڈالیں گے اور اس دوران کراؤڈ کو مکمل چارج کریں گے ۔ چونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کیوجہ سے مولانا کو بھرپور سیاسی، اخلاقی اور عملی حمایت شامل ہوگی۔مولانا سکھر میں بڑے بڑے جلسے کر چکے ہیں اوروہاں انہیں بلوچستان سے قافلے بھی جوائن کریں گے اور یوں مولانا کو پختون خواہ ملی عوامی پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی، ن لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی مشروط اور خاموش حمایت بھی حاصل ہوگی جو ان کا مشن پورے کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔سیاست چونکہ بے رحم ہے اور اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ہوا کا رخ بدلنے کی دیر ہوتی ہے اور لوگ کود کر قافلوں اور تحریکوں کا حصہ بن جایا کرتے ہیں جیسے کے افتخار چوہدری کی تحریک میں اتنی جان تھی کہ حزب اختلاف کے بڑے بڑے وکلاء بھی جان کی امان پا کر سالا رقافلہ بن گئے۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ والے ابھی اپنی اپنی پوزیشنز پر بھی قائم ہیں اور نیب کی ڈیل و ڈھیل کے چکر میں Trape ہیں اس لیے مولانا نے اس منظرنامے میں افق کی دوسری جانب جمعیت کا جھنڈا گاڑنے کے لے اکیلے ہی سربکف ہیں۔ تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ فیصلہ وقت پر کرنا کس قدر اہم ہوتا ہے جو تحریک انصاف نہ کرسکی ۔ سیاستدانوں کی بڑی تعداد کو پابند سلاسل کر دیا گیا مگر مولانا کو نہ پکڑا گیا۔ مولانا کو گرفتار نہ کرنا عمران خا ن کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔کیوں کہ عوام اب یہ جانتے ہیں کہ مولانا کے ملین مارچ والے جلسوں کی کوریج تو کسی چینل نے نہ دی مگر مولانا کی حالیہ آزادی مارچ کے اعلان کو کوریج سب نے بھرپور دی۔ ماجرا کیا ہے اﷲ ہی بہترجانتے ہیں۔

یاد رکھیئے ! مولانا کے فالوورز ہزاروں مدارس کے لاکھوں طلباء ہیں جوقوی اور سخت جان ہیں اور برگریا پیز ا کھا کر گزارا کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ سالہا سال موٹا گوشت ، لال لوبیا اور سریدیں کھانے والے ہیں جنہیں مولانا سے جذباتی انس اور فکری و روحانی لگاؤ ہے ۔اس لیے پی ٹی آئی کے ذمہ داروں کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرنی چاہیے اور خاص کر اس نازک موڑ پر جب کہ ایک طرف کشمیر کا معاملہ ہے تو دوسری طرف ملک کے اندرونی مسائلستان کا رونا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، اپوزیشن کو خواہ مخواہ تنگ نہ کرے بلکہ انہیں بھی نظام کا حصہ سمجھ کر مسائل کے گرداب سے نکلنے کی کوشش کرے۔اور اندرونی و بیرونی مسائل کو انصاف کیساتھ حل کرنا شروع کرے۔ ڈکٹیشن کے بجائے خود فیصلہ سازی کرے وگرنہ مولانا خدانخواستہ حکومت کو چلتا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔اگر عمران خان نے وقت پر فیصلے نہ کیے تو سیاسی اکھاڑے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
 
 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.