بھارتی میڈیا اور قادیانی فرقہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کا حامی ،۔۔

ملک کی سیاست میں ان دنوں مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے اعلان کردہ آزادی مارچ یا دھرنے کا چرچا ہے لیکن اس کے بارے ابھی تک واضح نہیں کہ یہ صرف مارچ ہوگا یا دھرنا۔مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کی سیاست میں ایک وکھری ٹائپ کا کردار ہے جسے عوامی اور سیاسی سطح پر اتنی زیادہ اہمیت تو حاصل نہیں لیکن اپنے ایک مخصوص نظریے اور طرز سیاست کے ذریعے وہ ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات پورے کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں 2018ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد مولانا صاحب چکرا سے گئے ہیں پہلے تو انھوں نے الیکشن کو جعلی قرا دیتے ہوئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جسے دونوں پارٹیوں سمیت اپوزیشن کی کسی جماعت نے قبول نہ کیا تو اسی جعلی الیکشن میں منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کے صدارتی الیکشن میں امیدوار بن گئے لیکن یہاں بھی شکست ان کا مقدر ٹھہری لیکن مولانا کو چین نہیں آیا وہ دن کو بھی حکومت گرانے کے خوابدیکھتے رہتے ہیں اب انھوں نے حکومت کیخلاف آزادی مارچ کا اعلان کردیا ہے اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا کے احتجاج کی مخالفت کرتی ہیں اور نہ کھل کر حمایت کرتی ہیں کیونکہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں ابھی پی ٹی آئی کو برسراقتدار آئے ایک سال ہوا ہے اس لیے اتنی جلدی حکومت کیخلاف کوئی تحریک کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں اگر کسی طور حکومت کیخلاف کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اس کا کریڈٹ مولنا فضل الرحمٰن حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ دونوں جماعتوں کے سیاسی نقصان کے مترادف ہوگا اور ناکامی کی صورت میں جس کے زیادہ امکانا ت ہیں تو اسے ان جماعتوں کی ناکامی سمجھا جائے گا دوسری طرف عوام کی طرف سے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ یا دھرنے پر تنقید کی جارہی ہے البتہ بھارتی میڈیا اس احتجاج کو خوب اچھال رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے آئیں کیمطابق کافر قرار دئیے گئے قادیانی فرقے کی طرف سے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج کی حمایت کی جارہی ہے کل سے سوشل میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ لندن سے جاری کردہ احمدیہ فرقے کے خلیفہ مرزا مسروراحمدکے ایک خط کے ذریعے قادیانیوں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اس احتجاج کی حمایت کریں اور اس احتجاج میں جمیعت العمائے اسلام کا پرچم اٹھاکر اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بھرپور طریقے سے حصہ لیں اگر یہ بات حقیقت ہے تو مولانا کے احتجاجی دھرنے کی ناکامی کیا ان کی سیاسی موت واقع ہوجانے کو کوئی نہیں روک سکتا پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اور غیرمسلم قرار دئیے گئے قادیانی جس تحریک کی حمایت کریں پاکستان کے عوام کسی طور بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے۔مولانا فضل الرحمٰن ماضی میں اسمبلی کی دوچار سیٹیں رکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں حکومت میں حصہ دار رہے وہ کئی سال تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے لیکن انھوں نے کشمیر کی آزادی بارے کبھی بھی ایک لفظ تک ادا نہیں اور نہ ہی انھوں نے کبھی عوام کے مسائل بارے لب کشائی کی عوام آئے روز مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن انھوں نے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے مہنگائی کیخلاف بھی کبھی بات نہیں کی کیونکہ وہ ہمیشہ سے اپنے مفادات کی سیاست میں مصروف عمل رہے ہیں اب الیکشن میں شکست کھانے اوراقتدار سے محرومی،سرکاری مراعات اور بنگلہ نمبر 22 سے ہاتھ دھونے کے غم میں دن رات حکومت گرانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے وہ مذہبی کارڈ استعمال کرکے مدارس کے طالبعلموں کو استعمال کرنے لے لیے سرگرم عمل ہیں انھیں بھارتی میڈیا کے علاوہ کسی خفیہ طاقت کی حمایت حاصل ہونے کے اشارے بھی ملتے ہیں ورنہ مولانا کو اپنی عوامی اور سیاسی حیثیت کا پوری طرح اندازہ ہے مولانا کو احتجاج کرنے کا پورا جمہوری حق حاصل ہے لیکن انھیں عوام کے جمہوری فیصلے کا بھی احترام کرنا چاہیے کہ لوگوں نے الیکشن میں مسترد کیا ہے تو پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے عوام کو پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت سے بہت زیادہ شکایات ہیں خاص طور پر لوگ مہنگائی کیوجہ سے پریشان ہیں کہ حکومت مہنگائی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کررہی لیکن عوام حکومت کیخلاف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری تقاضوں کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پورا کرنے کا موقع ملنا چاہیے کیونکہ پاکستان کے عوام نے انھیں پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے۔جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے سینکڑوں یا ہزاروں کارکنوں اور حمایتیوں کی مدد سے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے حکومت ختم کرنے کی کوشش کرے اگر یہ سلسہ چل نکلتا ہے تو پھر کوئی بھی حکومت کام نہیں کر سکتی موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی ملک کی تاریخ کا طویل ترین دو مہینوں پر محیط احتجاجی دھرنا دیا تھا جس میں پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تھی لیکن عوام نے اس وقت بھی اس طریقے سے حکومت گرانے کے لیے پی ٹی آئی کی حمایت نہیں کی تھی اور عوام اس وقت بھی مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے حکومت گرانے کے لیے اس طرح کے کسی احتجاج کی حمایت کریں گے کیونکہ یہ طریقہ نہ تو جمہوریت کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا دن رات مولانا کے آزادی مارچ کو اچھال رہا ہے کیونکہ دشمن سمجھتا ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے موجودہ حکومت ہی کو نہیں بلکہ پاکستان اور جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اسی چیز کو دیکھتے ہوئے قادیانی فرقہ کی طرف سے بھی مولانا کے احتجاج کی حمایت کی جارہی ہے جو سراسر پاکستان کیخلاف ایک گھناؤنی سازش ہے جسے عوام کیساتھ پاک فوج بھی دیکھ رہی ہے وہ ملک کیخلاف دشمن کی کسی بھی سازش کو ناکام بنادیں گے جمہوریت اور سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے سب سے اہم بات ملک اور جمہوریت ہے اگر عوام نے الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن کو مسترد کردیا ہے تو وہ خوشدلی کیساتھ عوام کے فیصلے کو قبول کریں اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کو بہتر بنائیں نہ کہ اپنی شکست کا انتقام لینے کے لیے جمہوریت اور ملک کو داؤ پر لگائیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو الیکشن میں ناکامی کے بعد مولانا اپنی بچی کھچی ساکھ اور سیاست کو ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد کردیں گے
 

Abdul Qayum
About the Author: Abdul Qayum Read More Articles by Abdul Qayum: 25 Articles with 27109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.