چند دن پہلے کی بات ہے لاہور میں میرے بڑے بھائی ایک
ہسپتال میں داخل تھے ۔میں بھی وہاں پر ہی تھا ۔باہر لان میں بیٹھے تھے کہ
ایک بزرگ جس کی عمر ستر سال کے قریب ہوگی وہ بھی ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔
وہ بزرگ بہت پریشان تھا ۔ پریشانی کا یہ عالم تھا کہ اس کے چہرے پر آنسو
لگا تار بہہ رہے تھے ۔مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان سے حال وغیرہ دریافت
کیا اور پریشانی کا سبب پوچھا ۔اس نے بتایا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور اس
کو دل کا دورہ پڑا ہے ۔ ہم اس کو بڑی مشکل سے یہاں لے کر آئے ہیں ۔ ہسپتال
والوں نے اس کو داخل تو کر لیا ہے مگر پانچ دن گزرجانے کے باوجود اس کی
انجیوگرافی نہیں کی جا رہی ہر روز میرے بیٹے کا نام لسٹ میں آتا ہے جن کی
انجیوگرافی ہونی ہوتی ہے ۔سب کی ہو جاتی ہے مگر میرے بیٹے کی نہیں ہوتی ۔
اس بزرگ نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ دو سال پہلے بھی اس کو دل کا دورہ پڑا
تھا ۔ اس وقت بھی ہم اس کو اسی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور لے کر
آئے تھے پر اس وقت تو فوری ہی سب کچھ ہو گیا تھا اور ہم دو دن بعد گھر چلے
گئے تھے ۔اب پانچ دن گزر گئے ہیں کوئی سننے والا نہیں ۔اس نے کہا کہ میں
ایک دو دفعہ ایمرجنسی میں گیا ہوں تووہاں کے جو سویپر ہیں وہ کہتے ہیں کہ
بابا جی یہ کام ایسے نہیں ہونا ۔کچھ لانا پڑے گا ۔ بیس ہزار مانگتے ہیں مگر
میں اس عمر میں بیس ہزار کہاں سے لے کرآؤں ۔بیٹا مر رہا ہے اور گھر میں
فاقے چل رہے ہیں۔یہ ہے تبدیلی پہلے ہسپتال آتے تھے سب کچھ فری ملتا تھا ۔کسی
کو رشوت نہیں دینی پڑتی تھی۔ فری میں چیک اپ ہوجاتاتھا اور دوائیاں بھی فری
مل جاتی تھیں۔بابا جی یہ باتیں بھی کر رہے تھے اور ساتھ میں رو بھی رہے تھے
۔رونا تو آتا ہی ہے جس کا جوان بیٹا مر رہا ہو۔اور کوئی سننے والا اور مدد
والا نہ ہو۔ تو پھر بہت کچھ جنم لیتا ہے ۔بابا جی بڑے غصے سے یہ فرما رہے
تھے کہ کہاں گیا عمران خان جو بڑے بڑے وعدے اور دعوے کرتا تھا ۔اب وہ عوام
میں نظر کیوں نہیں آتا ۔ کیا میرا بیٹا اسی طرح ہی مر جائے گا ۔بس بہت
افسوس کہ اب ہر پاکستانی عمران کو کوس رہا ہے ۔ کہ کہاں گیا ہمار ا مسیحا
جس نے ہمیں بہت سے خواب دیکھائے تھے ۔ یہ تھیں چند باتیں جو بابا جی نے
میرے ساتھ کیں ۔اب سوال یہی پید اہوتا ہے کہ عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا
۔اس لئے کہ عمران خان کچھ نیا کرے گا جس سے عوام کو ریلیف ملے گا مگر ہوا
کیا عمران خان کے آتے ہی سب کچھ الٹ چلنا شروع ہو گیا ۔ڈالر 100روپے سے
158روپے پر چلا گیا ۔صرف ڈالر کے بڑھ جانے سے ہی ہمارا ملکی قرضہ ساٹھ فیصد
بڑھ گیا ۔اور وہ انویسٹر جنہوں نے الیکشن میں عمران خان کو سپورٹ کیاتھا وہ
راتوں رات کھرب پتی بن گے اور پاکستان مزید مقروض ہو گیا۔جیسے ہی ڈالر بڑھا
پاکستان کے وہ اسٹاک ہولڈرز جو پاکستانی عوام کے دشمن ہیں انہوں نے ہر چیز
پر تالے لگا دیے اور حرام پروفٹ کما کر اپنی آخرت خراب کر لی ۔ اور سب کچھ
ملنا نایاب ہو گیا ۔روز مرہ کی اشیاء مارکیٹ میں ناپید ہو گئیں ۔اور بلیک
میں ملنا شروع ہو گئیں ۔ہماری حکومت نہ تو ان کو پکڑ سکی اور نہ ہی ان کے
خلاف کوئی اقدامات کر سکی ۔ بلکہ یہ کیا کہ عوام پر ٹیکس بڑھا دیے اور ان
سٹاک ہولڈرز کو معافی دے دی ۔رہی کھئی کسر حکومت نے یہ نئے ٹیکس لگا کر
نکال دی ۔ ٹیکس دینا ہر پاکستانی کا حق ہے ۔مگر ہر پاکستانی ہر اس چیز پر
ٹیکس دے رہا ہے جو وہ استعمال کرتا ہے یا خریدتا ہے۔اب وہ اور کہاں سے ٹیکس
دے ۔ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے کاروبار بند ہو چکے ہیں ۔مارکیٹ میں
خریدار ہی نہیں سب کچھ تباہ وبرباد ہو رہا ہے ۔مگر ہمارے وزیراعظم صاحب یہی
کہے جارہے ہیں میری عوام کھبرانا نہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب نہ
گھبرا ئیں جب تک مر نہیں جاتے ۔وزیر اعظم صاحب عوام کو ریلیف چاہئے۔ہسپتال
بھرے پڑے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔لوگ مر رہے ہیں ۔آپ یہ نہ کہیں کہ
ایک سال ہوا نہیں اور عوام کو تبدیلی چاہئے ۔اپنی ناتجربہ کار ٹیم کو فارغ
کر و کہیں یہ نہ ہوکہ یہ سب آپ کو عوام کے دلوں سے فارغ کروا دیں ۔اور ایسا
نظر آرہا ہے۔جس عوام نے آپ پر اعتماد کیا تھا اب وہی بے بس لوگ آپ کے خلاف
آواز بلند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔نئی نئی حکومت ہے نا جانے ہمارے ساتھ
کیا کرے گی ۔تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اب کہاں ہیں جو کہتے تھے ہم پاکستان
کو ترقی کی رہ پرگامزن کریں گے ہم غریبوں کو وسائل دیں گے ۔ غریبوں کے بچے
اقتدار میں آ کر ملک کو سنبھالیں گے ۔جیسے ہی کرسی ملی سب کی ہوا نکل گئی ۔باتیں
کرنے سے تبدیلی نہیں آتی اس پر عمل کریں گے تو تبدیلی آئے گی مگر تبدیلی
والوں کو کیا ڈالر کی ا ڑان یا ملکی روپے کی تذلیل ان کو اس سے کچھ لینا
دینا نہیں ۔جب تک ان کی پالیسیز بنیں گی تب تک کئی غریب غربت کی وجہ سے مر
جائیں گے ایسی پالیسیز بنائی جائیں جس میں سب کو یکساں فائدے میسر ہوں لیکن
جہاں تک میں جانتا ہوں۔ ہمارے ملک کے اندر اس قدرقدرتی وسائل موجود ہیں کہ
اگر ہم نیک نیتی سے ان پر کام کریں اور بے روزگاروں کو ان پر لگائیں تو
ہمارے ملک سے بے روزگاری اور مہنگائی سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔مگر ایسا یہ لوگ
کریں کیوں ۔اگر ان لوگو ں نے غریب کو خوشحال دیکھ لیاتو ان سیاستدانوں کا
کیا بنے گا جو غریب کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ان کو تو ضرورت صرف ان کے
ووٹ کی ہے ۔اور ان خداؤں کو پوجے گا کون۔اگر یہ لوگ اپنی سوچ بدل لیں تو
ہمارے ملک کا کچھ بھلا ہو سکتا ہے ۔عمران خان صاحب عوام کو ایک پلیٹ سالن
اور روٹی نہیں چاہئے بلکہ عوام کو وہ وسائل چاہئیں جس سے وہ اپنے بچوں کا
کل اچھا بنا سکیں ۔ایسے منصوبوں پر پیسہ لگا کر ملک کا مزید بیڑا غرق نہ
کریں ۔اگر کچھ کرنا ہی ہے تو نوجوانوں کو بغیر رشوت کے وسائل دیں ۔تاکہ ملک
سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔بے روزگاری کو ختم کیا جاسکتا ہے اگر ہمارے
حکومتی نمائدے غریبوں کے قابل اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو وسائل میسر کریں ۔
ہمارے ملک میں ہر روز بہت سی جابز نکلتی اور بند ہوتی ہیں ۔ غریبوں کے بچوں
کو نوازیں تاکہ ان کے گھروں کے حالات اچھے ہو سکیں ۔ اس تبدیلی کو کنٹرول
کیا جائے جو ہر غریب کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے ۔روزمرہ کی اشیاء اس قدر
مہنگی ہوچکی ہیں کہ ان پر قابو نہیں پایا جا رہا ۔اگر حالات اس طرح ہی رہے
تو بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت میں اضافے کو روکنا ہمارے بس سے باہر ہو
جائے گا اور ہم تنگ دستی ،بے روزگاری اور غربت میں دھنس جائیں گے ۔اگر
حکومت نے بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت کو کنٹرول کرناہے تو بے لوث غریبوں
کے بارے میں کوئی اچھی حکمت عملی تیارکی جائے جس سے ملک کے حالات بہتر اور
ملک ترقی کی رہ پر گامز ن ہو سکے پرجب تک وسائل نچلی سطح تک منتقل نہیں
کریں گے۔ ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔اورہر طرف سے تبدیلی کے خلاف ہی
نعرے سننے پڑیں گے ۔نہ کوئی حکمت عملی اور نہ ہی اداروں میں کرپشن رک سکی ۔بغیر
منصوبہ بندی کے ملک کو چلایا نہیں جا سکتا۔تبدیلی سرکارمیں کچھ کرنے کی ہمت
نہیں اور ہر طرف روک سکو تو روک لوتبدیلی آئی رے۔سن سن کر کان پک چکے
ہیں۔کہاں ہے تبدیلی نظرکیوں نہیں آتی اور ہمارے ہینڈسم وزیر اعظم کہتے ہیں
ایک سال پورا نہیں ہوا اور عوام کو تبدیلی چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |