مذہب کے انسانی زندگی پر اثرات،کلی طور پر ایک انتہائی
وسیع موضوع ہے۔ایک مضمون میں اسکی ایک پہلو کا انتہائی مختصر جائزہ ممکن
ہے۔اسی قاعدے کے تحت آج زیر قلم موضوع یہ ہیکہ مسلمانوں کے معاشرے میں مسجد
کوحقیقتاََ کیا مقام حاصل ہونا چاہئے جبکہ اسکے برعکس حالیہ دور میں
مسلمانوں کا طرز عمل،خصوصاََ پاکستان میں کیا ہے؟میں ایک عام مسلمان ہوں
اور تاریخ اسلام سے اتنا ہی واقف ہوں جتنا ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں،
سوائے چند کے کہ جنہوں نے اسلام کی تعلیم کو باقاعدہ حاصل کرنا اپنایا۔ اس
وجہ کو بنیاد بنا کر یہ کہتا چلوں کہ اس تحریر کا مقصد شریعت کے اصولوں کی
علمی تشریح یا فتویٰ ہر گز نہیں بلکہ سیکھنے کی غرض سے چند سوال کھڑے کرنا
ہے ۔ وہ سوال جو ہر سوچنے والے عام مسلمان کے ذہن کا یقینی حصہ ہو سکتے
ہیں۔ عموماََ۔
عبادت گاہیں تو یقیناََ خدا کے ماننے والوں کیلئے روز اول ہی سے موجود رہی
ہیں لیکن رسول اﷲ ﷺکی جانب سے دین اسلام کے اعلان کے بعد جو اولین عبادت
گاہ، یعنی مساجد جو اس کرہِ ارض پر قائم کی گئیں وہ مسجد ِ قباء ہے ۔اعلان
نبوت کے چودہ برس بعد رسول اﷲ ﷺ جب ہجرت کیئے تو ہجرت کے بعد عبادت گاہ کے
طور پر اسے منتخب کیا گیا۔اور بعد ازاں ہم نے بہت کچھ سن رکھا ہیکہ رسول اﷲ
ﷺ مسجد کو ایک مکمل کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال کیا کرتے۔کہیں بالکونی
سے اپنے کندھا مبارک کی اوٹ سے عائشہ صدیقہ( رض) کو کھیل دکھانے کی باتیں
ہوتیں تو کہیں رسول اﷲ ﷺ ،اپنے نواسوں حسنین کریمین علیہ السلام کے ساتھ
دوران نماز کیئے جانے والے طرز عمل کے قصے ہیں۔ کہا جاتا ہیکہ جب نواسہ
رسول آپﷺ کے کندھے پر چڑھ جاتے تو رسول اﷲ اپنا سجدہ طویل کر دیتے تاکہ
سردار نوجوانان جنت کے کھیل میں خلل نہ آئے۔ ریاست مدینہ کے سیاسی معاملات
سے لیکر اصحاب کے سماجی معاملات تک تو مسجد ہی میں ہوا کرتے۔بعد ازاں کی
اسلامی تاریخ سے بھی جو بات نکل کر آتی ہے وہ یہی ہے کہ مسجد کوئی معاشرے
سے کٹ کر کہ رکھے جانے والی جگہ نہیں بلکہ اسلام کا مقصود ، مسجد کو اس خاص
علاقے کیلئے کمیونٹی سنٹر بنانا تھا۔طے شدہ کبیرہ گناہوں اور لین دین( یعنی
کاروبار) کے علاوہ کسی سماجی معاملے کو مسجد میں کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔
خصوصاََ ریاست مدینہ کے سیاسی اور ریاستی معاملات تو بحرحال مسجد کو مرکزی
حیثیت حاصل تھی۔ دور افتادہ علاقوں کی آنے والے سائیلین کی داد رسی کیلئے
رسول اﷲ ﷺ اور انکے بعد خلفائے راشدین بھی مساجد ہی میں براجمان ہوتے۔
دعوتی وفود سے ملاقاتیں بھی مساجد ہی میں ہوا کرتیں۔ قاضی القظاء حضرات
(یعنی چیف جسٹس) بھی مساجد میں عدالت لگایا کرتے تھے۔ وزارت خزانہ میں
ریاستی محصولات،ٹیکسز،جزیہ اور مالِ غنیمت کی تقسیم کے مراحل بھی مساجد میں
طے کیئے گئے۔دیگر غیر مسلم ریاستوں کے سربراہوں کی جانب سے بھیجے جانے والے
سفارتی مشن کونسلرز اور ہائی کمیشن بھی گویا وہیں نمٹائے جاتے تھے۔ غیر
مسلم ریاستوں اور مسلمانوں کے بیچ مذاکرات اور معائدوں کی مثالیں بھی مساجد
کے اندر ہونے کے حوالے سے تاریخ میں موجود ہیں۔انتہائی نمایاں بات یہ کہ
رسول خدا نے مسجد میں صفوں کی تقسیم کرتے وقت تو خواتین، بچوں اور ٹرانس
جینڈرز کیلئے صفیں تک مختص کی ہیں ۔گویا کہ مسجد کو اسلامی معاشرے اور
ریاست کی تشکیل میں اس قدر نمایاں مقام حاصل ہے کہ جیسے"دارالحکومت"۔
یہ تو رہی وہ تصویر جو حقیقی اسلام کوعامیانہ طور،اپنے مطالعے کے پیش نظر
سمجھنے والے میرے جیسے عام مسلمان کی نظرمیں مسجد کی موجود تھی۔اب اگر آپ
موجودہ وقت میں حقائق کا جائزہ لیں تو گویا لٹیا ہی ڈبو دی ہے رحمۃ
اللعالمین ﷺ کے پیروکاروں نے اس تصور کی۔دور حاضر میں مساجد کے حالات دیکھ،
حیرت ہوتی ہیکہ یہ کیونکر رسول اﷲﷺکے دین کے مراکز کہلانے کے لائق ہو سکتی
ہیں۔ آئے روز مساجد اور مدارس میں مظالم، لواطت اور بدکاری کے قصے تو اب
خیر زبان زد عام ہیں ہی۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مساجد عموماََ
قبضہ والی زمین پر بنا دی جاتی ہیں۔ آئمہ کرام کے وارث، علامہ اور مولانا
سے ہوتے ہوئے مولوی اور ملا تک کا سفر طے کر چکے ہیں۔مساجد کا انتظام و
انصرام ہمارے معاشرے میں فساد کا باقاعدہ ایک موضوع بن چکا ہے۔ ملک کا شاید
ہی کوئی تھانہ ہو جہاں مسجد کی ملکیت کو لیکر کوئی مقدمہ فریقین کے درمیان
نہ چل رہا ہو،جس مقدمے کے فریقین متولی اور مولوی جبکہ باقی کے لوگ اس جنگ
میں رنگ بھرنے کو فریق۔یار لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں 3چیزیں
کبھی ختم نہ ہوئیں،مسئلہ کشمیر کے نام پر دفاعی بجٹ میں اضافہ، مسجد میں
توسیعی کام کیلئے چندہ کی مانگ اور مردانہ کمزوری۔اسی طرح یہ بات بھی قابل
غور ہیکہ مساجد میں سنگ مرمر انتہائی اعلیٰ قیمتی لگائی جاتی ہے لیکن مسجد
کے طہارت خانے ہمیشہ سے ہمارے قومی اذہان کی طرح تعفن زدہ۔حالانکہ مسجد میں
گھسنے کیلئے طہارت بنیادی شرط ہے۔خیر اﷲ اﷲ کر کہ جب آپ مسجد کے اندر داخل
ہو جاتے ہیں تو اسکے بعد کی دنیا بالکل ایک الگ منظر پیش کرتی ہے۔خطباء
حضرات خطبات میں عوام الناس کی دینی تربیت، اسلامی نظام کے اصول و مبادی
اور سماجی اخلاقیات کے علاوہ ہر غیر متعلقہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرماتے
ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے نمازوں کو قائم کرنے کیلئے وقت کے پابندی میں لفظ
"موقوتا" استعمال کر کہ اسکی اہمیت پر اور زور دیا ہے جبکہ آئمہ کرام مجال
ہے کہ کبھی وقت پر نماز جمعہ کی تکبیر اولیٰ کہہ دیں۔ جوں جوں نماز کا
علانیہ وقت قریب آتا ہے، مولانا کا جوش خطابت اور زور پکڑتا ہے اور رش دیکھ
کر موصوف مزید طبع آزمائی کرنے لگتے ہیں۔علماء کے موضوعات میں جب جب صنف
نازک کا ذکر آتا ہے، انکی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور لہجے میں غیر مرئی
طاقت سی آجاتی ہے،گویا اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ عورت ہی ہے۔اسی اثناء میں
ہم ایک اور منظر کوبھی اگنور نہیں کر سکتے کہ انہی رویوں کی وجہ سے مساجد
سے دوری کے اس دور میں اگر کوئی صاحب اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتی ہیں تو
زعم تقویٰ کی رعونت چہروں پر لئے صاحبان بچوں کو یوں دھتکارتے ہیں کہ گویا
بچوں نے اس نو عمری میں کوئی گناہ کبیرہ سرزد کر دیا ہو مسجد میں آکر۔ نام
نہاد اسلامی لباس یعنی سفید کرتہ شلوار والا انگریزی لباس یعنی پینٹ شرٹ
والے کو،داڑھی والا شیو والے کو حتیٰ کہ بڑی داڑھی والا چھوٹی داڑھی والے
کو ایک پہلو سے فاتحانہ جبکہ ایک دوسرے پہلو سے حقارت آمیز انداز سے دیکھ
رہے ہوتے،کچھ بولیں یا نہیں لیکن یہ کیفیات چہرے سے ٹپک رہی ہوتیں۔نماز کے
اختتام پر لوگ مولوی صاحب کی دعا کی تکمیل سے قبل ہی اس انداز ِ وحشیانہ
میں اندر سے باہر کی طرف لپکتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کندھوں کے اوپر سے
پھلانگتے ہوئے، ایک دوسرے سے ظالمانہ انداز میں ٹکراتے ہوئے،نمازیوں کے آگے
سے گزرتے ہوئے،بوڑھوں اور بچوں کو روندتے ہوئے نفسا نفسی کے عالم میں
بھاگتے ہیں کہ شاید باہر کچھ بٹ رہا ہو۔مجال کیا ہیکہ صبر اور حوصلہ قریب
سے چھو کر بھی گزرے۔ایذاء رسانی کا ایک اور طریقہ مسجد میں مومنین نے یہ
اپنایا ہوتا ہیکہ اگر کوئی شخص دعا مانگنے یا کسی بھی غرض سے بیٹھا ہواہے
تو پوری صف خالی چھوڑ، اسکے پیچھے جا کر نماز کی نیت باندھ لینگے تاکہ وہ
اٹھنے نہ پائے۔اور تہذیب شرعی کی آخری حد اور معراج مومنین کے ہاں یہ ٹھہری
ہیکہ اگر کوئی صاحب بغیر ٹوپی کے نماز پڑھ رہے ہیں تو انکے سر ٹوپی ضرور
رکھنی ہے،اس بات سے قطع نظر کہ تہذیب و شریعت میں اس کی کس قدر گنجائش ہے۔
مساجد پر قبضہ تو ایک قصہ ہی الگ ہے اور اگر یوں کہاجائے تو غلط نہیں ہو گا
کہ یہ سلسلہ تو ایک مافیا جیسا بھی ہے کہیں نہ کہیں۔
الغرض رسول خداﷺ نے جن مساجد کو اسلام کے نور کا منبع قرار دے کر خدا کے
گھر جیسے عالی مرتبت مقام نوازا تھا، اسکے حادثاتی وارثوں نے ان مراکز کو
اس تصور کا قاطع اور عملاََ بر عکس کر چھوڑا ہے۔اور اسلام کا حقیقی تصور
پیش کرنے کے خواہی طبقات کو یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ اسلام اور مساجد کو
ان جعلی یا نا اہل وارثوں کے چنگل سے چھڑا کر باقاعدہ ریاستی تحویل میں
لیکر ایک سسٹم کے تحت چلانا ہوگا تاکہ یہ اپنے حقیقی مقصدِ قیام و وجود کی
جانب لوٹ سکیں۔
|