المیۂ کشمیر اور مواصلاتی تعطل

گنگناتی ندیوں،بہتے دریاؤں، جھلملاتی آبشاروں ، رنگ بکھیرتے چشموں، روشن جھیلوں، چہچہاتے پرندوں، سر سبزوشاداب وادیوں اور کھلتے کنول کی سر زمین ہمالیہ کے برف پوش کہساروں کی آغوش میں واقع وادی مقبوضہ جموں و کشمیرآ ج تاریخ کا نوحہ پیش کر رہی ہے جس کی داستان ہر کشمیری بزرگ ، مرد و خواتین اور بچہ بچہ اپنے لہو سے رقم کر رہا ہے۔

ستر لاکھ سے زائد مسلم اکثریت پر مشتمل مقبوضہ وادی میں دس لاکھ کے لگ بھگ بھارت کے فوجی و نیم فوجی دستوں کی تعیناتی جبر و استبداد کی ایک کھلی اور ناقابل تردید مثال ہے۔ اتنی بڑی تعیناتی امن و امان کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے مامور کی گئی ہے جس نے لاکھوں کی آبادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل اور زندہ انسانوں کے قبرستان میں بدل دیا ہے جن سے نہ تو کوئی باہر کی دنیا سے رابطہ کر سکتا ہے اور نہ وہ کسی سے مخاطب ہو سکتے ہیں۔ آرٹیکل 370، 70برس ، 70لاکھ سے زائد لوگ ، 7لاکھ سے زائد فوج اور 70دنوں پر محیط مواصلاتی تعطل داستان کشمیر بیان کر رہے ہیں۔

سات دہائیاں قبل حق خود ارادیت اور جدوجہد آزادی کی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب قانون تقسیم آزادی ہند 1947ء (انڈین انڈیپنڈنٹ ایکٹ) کے تحت کشمیر کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا انڈیا میں سے کسی کے ساتھ بھی انضمام کر سکتا ہے لیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کی غرض سے اکتوبر1947ء میں انڈین حکومت کو ایک جز وقتی معاہدے کے ذریعے وادی میں رسائی دی جس کو کشمیری عوام نے سختی سے رد کر دیا اور یوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ انڈیا نے جنگ میں اپنی شکست فاش دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ سے اس معاملے پر مداخلت کی درخواست کر دی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے قرار داد پاس کی کہ انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال پر کشمیر میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کروایا جائے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔

یہ بات اپنے تئیں نہ صرف انتہائی حیران کن اور سمجھ سے بالا تر ہے بلکہ عالمی انصاف و قوانین کے علمبرداروں کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے کہ ایک خطہ جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور جسے پاکستان تقسیم ہند میں تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا سمجھتا ہے۔ جس کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہونا ہے تو پھر کسی ملک کا اندرونی معاملہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ ملک خود اس معاملے کے لیے اقوام متحدہ گیا ہو اور تمام فریقین اقوام متحدہ کے استصواب رائے کی قرار داد سے متفق نظر آتے ہوں تو پھر ایک فریق یعنی انڈیا اس میں کیسے ہیرا پھیری اور معاملے کو طوالت دے سکتا ہے اوربذریعہ طاقت و دھونس دھاندلی قبضہ رکھ سکتا ہے، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کر سکتا ہے اور نو آبادیاتی نظام لا کر ایک اکثریت کو کیسے اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، مہذب دنیا میں کوئی جنگل کا قانون تو ہے نہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہو اور نہ ہی اقوام عالم کے مشترکہ اخلاقی چارٹر میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے اب تو دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اگر ایک خطے میں ظلم و زیادتی ، شورش اور نا انصافی ہو تو اس کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے جبکہ یہ مسئلہ تو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے جس کی ایک چنگاری کروڑوں انسانوں کے امن کو خدانخواستہ لپیٹ میں لے سکتی ہے اس مسئلے کو تو بہت پہلے حل ہو جانا چاہیے تھا بلکہ اس پر تو تحقیقاتی/تفتیشی کمیشن بننا چاہیے کہ اس مسئلے کے حل میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی ہے کیونکہ کہ (Delay in justice is deny in justice )انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہوتی ہے اور کسی کی رائے یا آواز کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دینا ہے بندشیں ، قدغنیں اور پابندیاں تشدد کو ہوا دیتی ہیں جس سے مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہتا بلکہ المیہ بن جاتا ہے جو کسی بھی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کو خصوصی حیثیت/نیم خود مختاری دینے والی تعزیرات ہند کی آئینی شق 370کا خاتمہ اور اس سے پیدا شدہ صورتحال نہ صرف وادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش ہے بلکہ سرا سر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو سبو تاژ کرنے اور سلامتی کونسل کے دائرہ کار میں براہ راست مداخلت ہے غیر معینہ مدت کے لیے تاریخ کا بد ترین لاک ڈاؤن اور اتنی بڑی آبادی سے اظہار رائے کا حق چھیننا ان کوپتھر کے زمانے میں بھیجنے کے مترادف ہے۔

دکانیں بند، مارکیٹیں بند، کاروبار بند، ٹرانسپورٹ بند ، تعلیمی ادارے بند، تجارتی و تعلیمی سر گرمیوں کی معطلی، پھلوں سے لدے باغات اور بازاروں میں خاموشی یہ ہے کشمیر اور 2019ء۔ روزمرہ ضروریات زندگی اور طبی سہولیات تک عدم رسائی ، سنسر شپ اور احساس عدم تحفظ نے کشمیریوں کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے گردے کے عارضے ، دل کی بیماریاں اور کینسر کی ادویات ناپید ہو چکی ہیں چھوٹے دکاندار، مزدور، ریڑھی بان، خوانچہ فروش اور دہاڑی دار طبقہ جن کا گذر بسر دن بھر کی کمائی پر ہوتا ہے ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ہزاروں کمر شل گاڑیوں کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ اس تناؤ بھرے ماحول میں گذرتے شب و روز ،دنیا کو کشمیر کی صورت حال سے باخبر کر رہے ہیں۔

موبائل ہیں تو سگنل نہیں کمپیوٹر ہیں تو انٹرنیٹ نہیں لینڈ لائن فون ہیں تو آواز نہیں یہ ہے آج کا کشمیر۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک عام صارف دن میں پچاس مرتبہ سے زائد اپنا فون ان لاک کرتا ہے ذرا تصور کیجئے اگر آپ سے چار چھ گھنٹوں کے لیے آپ کافون لے لیا جائے خصوصاً ایسے غیر یقینی کے حالات میں جب آپ کے عزیز و اقارب کسی انجانی مصیبت کا شکار ہوں تو آپ کے احساسات اور جذبات کیا ہوں گے جبکہ لاکھوں کشمیری گزشتہ کئی ہفتوں سے اس کیفیت کا شکار ہیں اور تاریخ کا بد ترین لاک ڈاؤن اور بلیک آؤٹ بھگت رہے ہیں یہ صورت حال جہاں ایک سنگین المیے کی طرف دھکیل رہی ہے وہاں بین الاقوامی ٹیلی کام یونین کے ماٹو کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔آئی ٹی یو کا ماٹو کچھ اس طرح سے ہے:
(ITU is committed to connecting the all world'
s people wherever they live and whatever their means.through our work, we protect and support every one's right to communicate). ’’یعنی آئی ٹی یو دنیا کے تمام لوگوں وہ جہاں بھی رہ رہے ہوں اور جو بھی ان کے اسباب ہوں ان کو مربوط کرنے کے لیے پر عزم ہے اور اپنے کام کے ذریعے ہر ایک کے رابطے کے حق کی حفاظت اور حمایت کرتی ہے۔‘‘
آئی ٹی یو جو 1865کو وجود میں آئی نے دنیا کی قدیم ترین تنظیم ہونے کے ناطے اپنے منشور کی تکمیل میں ٹیلی کام خدمات تک رسائی آسان بنانے کے لیے طویل جدوجہد کے بعد آج ٹیلی کام سیکٹر کو دنیا کے ان چند شعبوں میں لا کھڑا کیا ہے جو دنیا کی معیشت ، تیز رفتار ترقی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی میں سر فہرست ہیں اس سے صارفین کی توقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کا اس پر انحصار اور دارومدار بھی بڑھا ہے۔ ایسے حالات میں سات ملین سے زائد لوگوں کو اس سہولت سے محروم کرنا اور ان کا معاشی قتل کرنا خود آئی ٹی یو کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے۔ جب کہ خود بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حالات نارمل ہیں تو ایسے میں لاک ڈاؤن کرنانہ صرف بلاجواز ہے بلکہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ آئی ٹی یو کو فوراً اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور لاک ڈاؤن کا معاملہ بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھا ناچاہیے اور اس پابندی کو مکمل طور پرختم کرانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔مزید براں ٹیلی کا م شعبہ سے منسلک افرادخصوصاً موبائل فون مرمت کرنے والے ، ایزی لوڈ، انٹرنیٹ کیفے اور پی سی او چلانے والوں کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر ان کا ازالہ کرانا چاہیے۔ اور ایسے اقدامات کرنے چاہیں کہ مستقبل میں وسیع پیمانے پر ایسے بلا جوازمواصلاتی بلیک آؤٹ سے بچا جا سکے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، صحت عامہ کے اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں بشمول یونیسف کی ٹیم کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرنا چاہیے اور وہاں معصوم بچوں کی حالت زار اور دیگر حالات کو اپنی نظروں سے دیکھنا چاہیے۔ چھرے والی بندوقوں کے استعمال سے کشمیریوں کی بینائی تو چھینی جا سکتی ہے لیکن بین الاقوامی قوانین اور ادارے اندھے نہیں ہو سکتے۔ اداروں کی ساکھ ، غیر جانب داری ، اپنے منشور کی پاسداری اور اپنے قوانین کی عملداری پر ہوتی ہے۔ اس دیرینہ مسئلے کے دیرپا اور مستقل حل کی ضرورت کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق جتنی اب ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔

کشمیر ابھی تک محصور ہے اور المیہ کشمیر کے معاشی ، سیاسی ،عسکری اور اخلاقی اثرات ومضمرات عالمی سطح پر مرتب ہوں گے۔ اس لیے ان پابندیوں کے دورانیے اور مواصلاتی نظام کے تعطل کو اب مزید طویل نہیں ہونا چاہیے۔
 

Muhammad Farooq
About the Author: Muhammad Farooq Read More Articles by Muhammad Farooq: 6 Articles with 5418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.