ایک بچہ ایک ریگستان سے گزر رہا ہوتا ہے۔ہاتھ میں شاپر جس
میں یہ ننھی جان اپنے والدین کے کپڑے اٹھا کر مایوسی و تھکاوٹ کے مارے
آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوۓ قافلے سے ملنے کیلۓ کوشاں ہوتاہے۔راستے میں اس
بچے کو امن کے جھوٹادعوی کرنے والے UN کے کارندے روک کر ساری معلومات لیتے
ہیں۔اس طفلِ اسلام کے مطابق وہ شام سے صرف والدین کی نشانی کے طور پر کپڑے
لاسکا ہے اور والدین کی لاشیں کسی بھاری بھر کم عمارت کے ملبے تلے بھول آیا
ہے۔
اس ننھے مظلوم چہرے پر اس کا غم واضع کر رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سوئی
ہوئی غیرت جگا پاۓ گا یا نہیں۔شام میں گزشتہ کچھ سالوں سے خونریزی و بربریت
اپنے زوروں پر ہے۔کبھی دہشتگردوں پر حملے ہوتے ہیں جن میں اکثریت میں بچے
اور عورتیں ماری جاتی ہیں۔بات سمجھنے کی یہ ہے کہ
وہ کونسا دہشتگرد ہوتا ہے جو ابھی تک ماں کی کوک سے باہر بھی نہیں نکلا
ہوتا؟
وہ کونسا دہشتگرد ہے جو ابھی ماں کا دودھ پی رہا ہوتا ہے؟
وہ کونسا دہشتگر ہوتا ہے جو اپنی بہن کے ساتھ کھیل رہا ہوتا ہے؟
وہ کونسی دہشتگرد ہیں جو حاملہ ہونے کی وجہ سے ہلنے جلنے سے قاصر ہوتیں ہیں؟
وہ کونسی دہشتگرد ہیں جو ٹانگیں کٹوا کرخاوند بیٹے بے قصور شہید کروا کر ان
کی راہ تک رہیں ہیں؟
یقیناً یہ لوگ اپنے کسی مسیحا کے منتظر ہیں لیکن مسیحا بنے گا کون وہ لوگ
مسیحا بنیں گے جو اپنی گھر کی ناپاک سیاست سے ابھی تک فارغ نہیں ہوے۔
لیکن درد تو تب ہوتا ہے جب درد کو سمجھا جاتا ہے۔یہ لوگ کوئی اپنے ہیں جن
کا درد ہم بانٹیں۔بس قصور ان کا نہیں ہے۔مسلہ یہ ہے کی حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اہل شام کی مدد کیلۓ دوڑنا جب وہ مشکل میں
ہوں۔اسے حدیث پر عمل کر رہے ہیں ہم۔
اسلامی فوجی اتحاد اب کہاں ہے۔جو مسلمانوں کی نصرت کیلۓ بنایا گیا تھا۔اس
اتحاد کو اب مدد کرنی چاہیئے مسلمانوں کی یا یہ لوگ تب کریں گے جب اہل شام
قبرستانوں میں ہوں گے۔
مجھے اب وہ TV چینلز نظر نہیں آتے جواندرونی قومی معملات کو بین الاقوامی
سطح پر اچھالتے ہیں۔مجھے وہ صحافی نظر نہیں آرہے۔جو پاکستان کے غیور خفیہ
اداروں پر ملک دشمن عناصر کو راضی کرنے کیلۓ کچڑ اچھالتے ہیں۔
بس یہاں!
قلم بکتا ہے۔۔۔
روشنائی بکتی ہے۔۔۔
لفظ بکتے ہیں۔۔۔
واقعات بکتے ہیں۔۔۔
پیاس بکتی ہے۔۔۔
احساس بکتے ہیں۔۔۔
حوصلے بکتے ہیں۔۔۔
مسکراہٹ بکتی ہے۔۔۔
لوگ بکتے ہیں۔۔۔۔
اور
حکمران بکتے ہیں۔۔۔۔۔
آج کسی کے حق کیلے بولو گے تو کل لوگ تمہارے حق کیلے لڑیں گے۔اگر آج امت
مسلمہ کی پاسبانی سے منہ موڑو گے تو خدا تم سے یہ توفیق بھی چھین لے گا۔
اب دنیا کے قلم٫عقل،دل،حرکات،سکنات،الفاظ و زبان سب خاموش ہیں اور یہ تب تک
رہیں گے جب تک شام خاموش نہیں ہوتا۔
ستم ظریفیِ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو،
دلوں کی محبت کو
اس طرح سے مسلاہے،
اس طرح سے کچلا ہے
کہ زندگی اذیت ہے،
سانس کی بھی قیمت ہے
کس کا ہاتھ ہے،
جو خون سے رنگا نہیں
کس کا گریبان ہے،
جو گرفت سے بچا نہیں
اب صداۓ موت آتی ہے،
شہر بھرکی گلیوں سے
خون کی بو آتی ہے،
پھولوں اور کلیوں سے۔
شکریہ!
|