کر کٹ کے میدان میں اپنی غلطی سے ہٹ وکٹ ہوجانے والا
کھلاڑی آوٹ ہوکر پویلین لوٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح فٹ بال میں بھی کبھی کبھار
سیلف گول ہوجاتا ہے یعنی کھلاڑی گیند کو اپنے گول پوسٹ سے دور کرنے کی کوشش
میں اندر داغ دیتا ہے۔ کھیل میں ہار جیت تو ویسے بھی ہوتی رہتی ہے اس لیے
نقصان معمولی ہوتا ہے لیکن اگر یہی معاملہ جنگ پیش آجائے تو اس کی بھاری
قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہندوستانی فضائیہ کے ایئر چیف راکیش کمار سنگھ بھدوریا
نے اپنی ذمہ داری کی باگ ڈور سنبھالنے کے پانچ دن بعد ، سالانہ پریس
کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ ایئر فورس کی جانب سے
بڈگام میں اپنے ہی میزائل سے ہیلی کاپٹر گرانا یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ اس
حادثہ میں ہیلی کاپٹر کے اندر موجود چھ فوجی اہلکاروں اور ملبہ گرنے ایک
شہری ہلاک ہوگیا تھا ۔ اس وقت یہ معاملہ تحقیق کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا
مگر اب یہ حالت ہے؎
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
ہندوستان کے اندر اس سال کے اوائل میں جب انتخابی جنگ بامِ عروج پر تھی
اچانک مغربی سرحد گرم ہوگئی ۔ پہلے تو پلوامہ میں سی آر پی ایف کی بس پر
بھیانک حملہ ہوا جس میں ۴۸ جوان ہلاک ہوگئے ۔ اسی کے ساتھ حملے کی وجوہات
اور اس کی ذمہ داری کو لے کر ملک بھر میں طویل بحث چھڑ گئی ۔ سوال پوچھا
گیا کہ مطالبے کے باوجود جوانوں کے دستے کو ہوائی جہاز سے پہنچانے کا
اہتمام کیوں نہیں کیا گیا ؟ یہ اعتراض اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ ملک
بھر میں سیاسی رہنما ہیلی کاپٹرس اور جہازوں میں گھوم گھوم کر انتخابی مہم
چلا رہے تھے ۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی مقدار میں آر ڈی ایکس کے وہاں پہنچ
جانے کو بھی سیکیورٹی کی کوتاہی قرار دیا جانے لگا اور حکومت اس معاملے میں
گھر تی چلی گئی ۔ اس ہیجان انگیز ماحول میں پلوامہ حملے کے 12 دن بعد 26
فروری ۲۰۱۹ کو اچانک بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک کی خبر ذرائع ابلاغ پر چھاگئی۔
بالا کوٹ سے متعلق ہندوستان اور پاکستان کے اندر متضاد دعویٰ کیے گئے ۔
دونوں نے حملے کا وقوع پذیر ہونا تو تسلیم کیا مگر ایک طرف ٹیلی ویژن کے
پردے پر زبردست کامیابی اور لشکر کے اڈے کی تباہی کو تفصیل کے ساتھ بیان
کیا جارہا تھا اور دوسری جانب ایک کوے کے مرنے کی خبر دکھائی جارہی تھی ۔
خیر حقیقت جو بھی ہواس فضائی حملے کے سیاسی استعمال نے بی جے پی کو انتخابی
کامیابی سے نواز دیا۔ بالاکوٹ حملے کے اگلے ہی دن 27 فروری کی صبح پاک
فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول کو پار کرکے کشمیر میں 6 اہداف پر
حملہ کیا ۔ اس کو بھی دونوں ممالک نے تسلیم کیا لیکن ذرائع ابلاغ نے متضاد
انداز میں پیش کیا ۔ ہندوستان کے اندر کہا گیا کہ ہماری فوج نے ناپاک حملہ
ناکام کر کے دشمن کو مار بھگایا ۔ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ جان بوجھ کرکھلی
جگہ پر اسٹرائیک کیا گیا تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ پاکستان کے پاس جوابی حملے
صلاحیت موجود ہے لیکن وہ کوئی غیر ذمہ دارانہ کام نہیں کرنا چاہتا ۔ سچ تو
یہ ہے کہ جس طرح بالاکوٹ کا حملہ مودی کی سیاسی ضرورت تھا اسی طرح عمران پر
بھی جوابی حملہ کا سیاسی دباو بن گیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے جوابی حملے کے بعد ہندوستانی فضائیہ نے اس کا پیچھا کیا
۔ اس میں دو جہاز مارگرائے گئے ۔ ایک کے بارے میں یقینی خبر آئی کہ وہ
ہندوستانی فضائیہ کا تھا کیونکہ اس کو اڑانے والا ونگ کمانڈر ابھی نندن
گرفتار ہو گیا تھا لیکن دوسرے کو دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا قرار دے کر
مارگرانے کا سہرہ اپنے سر باندھ لیا۔پاکستانی حدود کے اندر گرنے والے طیارے
کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی حراست کے بعد ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا
اور ذرائع ابلاغ کو پھر سے اپنا کاروبار چمکانے اور ٹی آر پی بڑھانے کا
نادر موقع حاصل ہوگیا۔ سیاستداں اپنی روٹیاں سینکنے لگے لیکن معاملہ طول
نہیں پکڑ سکا کیونکہ دو ہی دن بعد یکم مارچ 2019 کو ابھینندن کی رہائی کے
ساتھ تندور سردپڑگیا ۔ پاکستانی میڈیا اس کو کشادہ دلی کہہ کر اپنے ملک کی
خودستائی کی ۔ ہندوستان کے اندر پہلے تو یہ تاثر عام کیا گیا کہ مودی کے ڈر
سے پاکستان مجبور ہوگیا اور پھر حراست کے دوران ابھینندن کی تعذیب کا بازار
گرم ہوگیا۔ اس موضوع پر انتخاب جیتنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے پاس یہ سب کرنے
کے سوا چارۂ کار نہیں تھا۔
اس ہنگامہ آرائی کے دوران 27 فروری کو وہ سانحہ پیش آیا جس کاذکر ائر چیف
راکیش کمار سنگھ بھدوریا نے حال میں کیا ۔ سری نگر کے قریب بڈگام میں یہ
واقعہ رونما ہوا تھا ۔ انہوں نے صاف کہا کہ، ’’ایئر فورس کا خیال ہے کہ یہ
ہیلی کاپٹر ہمارے میزائل سے ہی گرا اور یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ آئندہ
ایسے واقعات پیش نہ آئیں اس کے لیے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے
‘‘۔بھدوریا کی وضاحت مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی جانے والی
کورٹ آف انکوائری کے رپورٹ کی روشنی میں سامنے آئی ہے۔یہ سیاسی رہنماوں
کی مانند بلاثبوت اوٹ پٹانگ دعویٰ نہیں ہے۔اس حادثہ کی جانچ کے دوران پتہ
چلا ہے کہ ہیلی کاپٹر کرو ممبر اور گراونڈ اسٹاف کے درمیان بہتر مواصلات کی
کمی کے سبب یہ حادثہ پیش آیا۔
اس بدقسمت ہیلی کاپٹر نے 27 فروری کی صبح 10.10 بجے سری نگر ہوائی اڈہ سے
اڑان بھری تھی ۔ اس کے تقریبا 40 منٹ پہلے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے
ہندوستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے بڈگام میں دراندازی کی کوشش کی تھی
۔ ہیلی کاپٹر کو اسکواڈرن لیڈر سدھارتھ وششٹھ اڑا رہے تھے ۔ پریس کانفرنس
میں فضائیہ کے سربراہ نے دو اہم اعلانات کیے۔ پہلا تو یہ کہ اس میں قصوروار
پائے جانے والے فضائیہ کے چار افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہےلیکن
کارروائی کی تفصیل نہیں بتائی ۔ اس کے علاوہ بھدوریا نے حادثے میں ہلاک
ہونے والے تمام افسران کو جنگی موت کے فوائد فراہم کیے جا نے کی یقین دہانی
بھی کرائی۔ فوج نے تو ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری قبول کرلی مگر افسوس
کہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر اقتدار پر فائز ہوجانے والے بڑ بولے رہنما
بالکل خاموش ہیں ۔ ان کی زبان سے پسماندگان کی ہمدردی میں ایک لفظ بھی نہیں
پھوٹا۔ ویسے سیاستدانوں سے اس بابت کوئی توقع کرنا بھی خام خیالی ہے۔ وہ تو
یہی کرسکتے ہیں کہ رافیل لڑاکو طیارے کی علامتی ڈیلیوری لینے سرکاری خرچ پر
دہلی سے پیرس تک کا حقیقی سفر کریں اور وہاں لیموں مرچی لگا کر ملک کا نام
روشن کریں ۔حیرت تو لکشمی کے پجاری میڈیا پر ہوتی ہے جس نے اس کی تشہیر
کرکے قوم مزید شرمسار کردیا۔
|