طوطا کہانی قصہ اس عاقبت نا اندیش طوطے کا جسنے ناحق جان گنوائی

طوطا کہانی - کرکٹ ورلڈ کپ اسپیشل

محلے کے چند شریر لڑکے کو برابر والے محلے کی لڑکیوں کو چھیڑنے اور انکو اپنے چکر میں پھانسنے کی بڑی بڑی ڈینگیں مارتے سن سن کر ایک روز وہ بھی اسی محلے کی جانب چل دیا اور پھر اٌس محلے کے لڑکوں نے اسکی حرکات دیکھ کر وہ وہ ٹھکائیاں لگائی کہ بس خدا کی پناہ اور پھر اٌس دن کے بعد سے اٌس تو کیا خود اپنے محلے کی لڑکیاں، اسے لڑکیاں کم ماں بہنیں زیادہ دکھائی دینے لگیں۔

چلیں خیر سے اِن صاحبزادے کا قصہ تو ٹھکائی اور پھر ہفتوں سِکائی تک ہی محدود رہا لیکن اٌس کمبخت، کوتاہ نظر و عاقبت نا اندیش طوطے کا کیا کیجئے جو کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان کے جیتنے کی پیشن گوئی کر کے خدائی خدمتگار بننے چلا تھا اور شیو سینا کے ہاتھوں اپنی جان ہی گنوا بیٹھا۔

ہاں اگر پاکستان فائنل نا سہی سیمی فائنل ہی جیت جاتا تو اس نامراد طوطے کا خون رائیگاں نا جاتا اور ممکن تھا کہ پاکستان سے والہانہ محبت کے صلے میں اسے حکومت ِ پاکستان شہید ِکرکٹ گردانتے ہوئے نشان ِحیدر سے نہ سہی، کسی دیگر سول ایوارڈ ہی سے بعدازمرگ ہی نواز دیتی کیونکہ یہ ہمارے یہاں کا خاصہ ہے کہ عموماً مرنے کے بعد ہی کسی کو اس قابل سمجھا جاتا ہے۔

لیکن صد افسوس کے اس کم عقل طوطے نے اک بے پرواہ سجن کے ہاتھوں کھجل خوار ہو کر اور اک سیاں اناڑی کے چکر میں اپنی متاع ِحیات گنوا دی۔ کاش کہ پرائی آگ میں کودنے والے اس طوطے نے بزرگوں ہی کے کہے"جسکا کھاؤ اسی کے گن گاؤ" کو کچھ جان کر ہی اپنی زندگی اور عاقبت ہی سنوار لی ہوتی، عاقبت اس لیے کہ پاکستان کی شکست کے بعد غلط پیشن گوئی غلط ثابت ہونے پر داروغہ ِ جنت نے اسے درے لگاتے ہوئے حرام موت مرنے کے جرم میں داروغہ ِ جہنم کو اس تاکید کے ساتھ حوالے کیا کہ اس ناہنجار کو جہنم کے سب سے زیریں طبقے میں داخل کیا جائے۔

باخبر زرائع نے بتایا ہے طوطوں کی عالمی برادری نے اِس طوطے کے عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کرتے ہوئے نہ صرف یہ تہیہ کرلیا ہے کے آئندہ کوئی بھی طوطا کبھی اٌس ملک کے خلاف کوئی پیشن گوئی نا کریگا جسکا کہ وہ خود باسی ہے اور اپنی آئندہ نسلوں تک اس سبق کو منتقل کرنے کیلیئے یہ لازم قرار دیا گیا ہے اب سے ہر طوطا بجائے یہ رٹنے کے "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" یہ کہا کریگا کے "میاں مٹھو جھوٹی پیشن گوئی کروں گے؟" جسے سن کر انکی نسل ِنو کو اس طوطے کا عبرت ناک انجام ہمیشہ یاد رہیگا۔

ہمارے خیال میں اس طوطے کے انجام سے تو ہم پاکستانیوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہمارا تعلق جس زمین سے ہے اگر ہم نے اسی سے وفا نہ کی اور ہر معاملے میں اوروں ہی کے گن گاتے رہے تو ہمارا بھی حال اس طوطے جیسا ہی ہوسکتا ہے۔

زرا سوچیئے کہ اگر کہیں اس کم عقل طوطے نے بھارت کے جیتنے کی پیشن گوئی کردی ہوتی تو یہ شیو سینا جو اسکی قاتل بن گئی، سیمی فائنل کے بعد اسی طوطے کو بھگوان کا کوئی اوتار مان کر اسکی پوجا پاٹھ شروع کردیتی اور اسے خالص سونے کے پنجرے میں رکھا جاتا اور کھانے کو صبح و شام دیسی گھی کی چوری اور پینے کو دودھ ملا کرتا اور جب وہ مرتا تو اسکے جسم کو حنوط کر کے اسے بھارت کے سب سے بڑے مندر میں بھگوان کا درجہ دیکر اس پر دن رات چڑھاوے چڑھائے جاتے اور اسکی مورتیاں بننا شروع ہوجاتیں اور گھر گھر میں پائیں جاتیں۔ لیکن اس نمک حرام طوطے کے جی میں نا جانے کیا سمائی کہ پاکستان کے حق میں ایک بار نہیں پانچ بار ورلڈ کپ کے فاتح ہونے کی پیشن گوئی کر کے کتا نا ہونے ہوئے بھی کتے کی موت مارا گیا۔ بےوقوف اور پاگل کہیں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!۔

بھارت میں تو اسے مار ہی دیا گیا اور بس کہانی ختم! لیکن اگر یہ کم عقل طوطا جو کہیں پاکستان میں ہوتا اور اس کی پیشن گوئی اسطرح سے جھوٹی پڑتی تو وہ ہم پاکستانیوں کے ہاتھوں جس ہزیمت کا شکار ہوتا اسکے تو عشر ِعشیر کا بھی شیو سینا والے مظاہرہ نا کرسکے۔

سب سے پہلے تو سیمی فائنل ہارتے ہی اسکے خلاف دروغ گوئی اور جھوٹی پیشن گوئیاں اور فال نکالنے کے قطعاً غیر اسلامی و غیر شرعی فعل پر اسے دائرہ ِ اسلام سے خارج اور کافر کہہ کر "واجب القتل" قرار دے دیا جاتا اور خود کش حملہ آور اسکی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔ کم از کم دو چار ماہ تک باقاعدگی کے ساتھ بعد نماز جمعہ ریگل چوک صدر سمیت ملک بھر کے چھوٹے بڑے چوکوں پر اسکے خلاف احتجاجی مظاہرے کیئے جاتے جسمیں شامل مشتعل افراد پہلے تو یہ نعرے لگاتے:۔
۔"جو قوم کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے"۔

اور پھر اشتعال کی آخری حدود کو پہنچ کر سرکاری و غیرسرکاری املاک اور پبلک و نجی ٹرانسپورٹ کو آگ لگا اپنے اپنے زور ِ بازو کے مطابق ملک و قوم کی خوب خدمت کرتے۔

اصل بات تو ہم آپکو بتاتے ہیں جو ان بےچارے شیو سینا والوں کی پتہ ہی نا تھی ورنہ وہ اس معمولی سے جاہل طوطے کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر کبھی اسے طوطے کو پاکستانی عوام کی آنکھوں میں ہیرو بننے کا موقعہ ہی نا دیتے۔ دراصل انکو یہ پتہ ہی نا تھا کہ طوطے تو ہوتے ہی "طوطا چشم" ہیں اور جسکا کھاتے ہیں اسی سے آنکھ پھیر لیتے ہیں اور چاہے کوئی انہیں سونے کے پنجرے ہی میں رکھ کر سونے کے نوالے ہی کیوں نا کھلائے، جہاں موقعہ ملا وہیں نگاہیں پھیر کر اڑا جاتے ہیں۔ لٰہذا اگر وہ اس قسم کو کوئی بکواس کریں بھی تو درگزر سے کام لیا جائے اور اسے کم عقل اور ناسمجھ پرندہ سمجھ کر اسکے قول و فعل کو دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نا دی جائے۔

بطور ِ ثبوت آپ اسی طوطے کو لے لیجئے، احمق نا ہو تو، اگر اس قسم کی احمقانہ ڈینگیں نا مارتا تو آج کسی پنجرے میں ہی سہی کم از کم زندہ تو ہوتا اور اگر جو کہیں اس نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے حق میں کوئی پیشن گوئی کرڈالی ہوتی تو سیمی فائنل کے نعد تو اسکی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا۔

زرا اس طوطے کی عظیم حماقت کا اندازہ تو لگائیں کے جس ٹیم کے جیتنے کی اسنے پیشن گوئی کر کے اس ٹیم کی ہار جیت کے فیصلے سے قبل ہی موت کو گلے لگا لیا وہی ٹیم ہار کے بھی خادم ِ و وزیر ِاعلیٰ پنجاب کی جانب سے پانچ پانچ لاکھ روپے فی کھلاڑی کے مستحق قرار پائے ہیں اور خود اسے نا معلوم پانچ انچ برابر قبر کی زمین بھی میسر آئی کہ نہیں پا پھر شیو سینا والوں نے ہندو دھرم کے مطابق شمشان گھاٹ میں اسکی چتا ہی جلا ڈالی۔

وہ جو کہتے ہیں نا کہ عافیت اسی میں ہے کے آپ جو ہیں وہی رہیں، باالفاظ ِ دیگر بڑے بوڑھے کچھ یوں بھی کہہ گئے ہیں:۔
کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا

اور اٌن طوطے صاحب کے ساتھ تو کچھ یوں ہوا کے:۔
طوطا چلا پاکستانیوں کی چال اور اپنی جان سے ہی گیا!۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.