آج کل مولانا فضل الرحمان صاحب ہر طرف چھائے ہوئے ہیں،
نگر نگر آزادی مارچ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، وہ حکومت میں ہوتے ہوئے
شاید اتنے طاقتور نہیں تھے جتنے اب بن چکے ہیں۔ اسوقت ایک مولانا ہی ہیں جو
حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جن کو حکومت دلوا
دیگئ ہے انہیں حکومت کرنا نہیں آتا اور عرصہ دراز تک اقتدار کے مزے لوٹنے
والوں کو یہ ہی نہیں معلوم کہ اپوزیشن کا رول کیا ہونا چاہیے۔ مولانا کے
بقول اکتوبر کے آخر میں جگہ جگہ احتجاج کرتے ہوئے ریلیاں 31 اکتوبر کو
اسلام آباد پہنچ جائیں گی۔
مولانا صاحب کا دھرنا کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا
کیونکہ ماضی میں کوئی دھرنا یا لانگ مارچ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی
آکسیجن دیے بغیر کامیاب نہیں ہوا ہے جبکہ قائد جمعیت ہر دور میں بظاہر
خلائی قوت کے خلاف ہی کھڑے نظر آئے ہیں، تاہم اتنی بات وثوق سے کہی جاسکتی
ہے کہ ان کا دھرنا خان صاحب کی دھرنیوں کے مقابلے میں کافی توانا ثابت
ہوگا۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ دھرنا سیاست عمران
خان کی پیدوار ہے مولانا کا مزاج نہیں۔ اگر مولانا صاحب 2014 کے عمران خان
کے دھرنے کے خلاف تھے اور اس کو ملکی معیشت اور سلامتی و استحکام کے لئے
خطرہ سمجھتے تھے تو آخر کوئی وجہ تو ہے جس کی بنیاد پر مولانا صاحب اپنے
مزاج کے برخلاف دھرنا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک سبب تو وہی ہے جو وہ بار
بار دہراتے چلے آرہے ہیں کہ موجودہ حکومت جعلی اور کٹھ پُتلی ہے لیکن شاید
ان کے ہاں دھرنے کے جواز کے لیے اس سے زیادہ قوی سبب موجودہ حکومت کی
نااہلی ہے۔ اگر یہ جعلی حکومت بھی اپنی سوچ، رویہ اور طرزِ عمل تبدیل کر کے
ڈیلیور کرتی، عوام کو آسانیاں دیتی، روزگار دیتی ، بنیادی سہولیات دیتی اور
مہنگائی سے نجات دلاتی، یا اگر مہنگائی بڑھ بھی جاتی مگر کم از کم سود کی
لعنت سے ملک وقوم کو نجات دلاتی تو شاید مولانا کے پاس دھرنے کا اخلاقی
جواز باقی نہ رہتا مگر افسوس کہ موجودہ حکومت کی طرف سے دین ودنیا دونوں کے
حوالے سے کوئی خوش کن خبر عوام کو نہیں مل رہی بلکہ الٹا معیشت تباہ ہو رہی
ہے، لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں، چھپڑ پھاڑ مہنگائی آسمان سے باتیں کر
رہی ہے، اشیاء خوردونوش چینی، آٹا، دالیں، گھی، پھل سبزی کی قیمتیں حکومتی
مافیا کے لوگ من مرضی سے آئے دن بڑھاتے چلے جا رہے ہیں اور انتشار،
افراتفری، بے یقینی میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
الغرض جس تبدیلی اور عادلانہ نظام کی بات تحریک انصاف کیا کرتی تھی وہ دور
دور تک نظر نہیں آرہا۔ اس وقت حکومت کی غیرسنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ
حکومتی وزراء آئے دن غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں کبھی زلزلے میں
احساس سے عاری بیان سے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی تو کبھی اپنے ہاتھ کی
حلال کمائی کے بارے میں تحقیر آمیز گفتگو۔
ہم تو اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جنہوں نے جفاکشی کی
ترغیب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ: تم میں سے ایک شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ
پر لاد کر لاتا ہے اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے، یہ اس کے لئے اس سے بہتر
ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے، جو اسے دے یا انکار کردے۔ لیکن خیبر پختونخوا کے
وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کو ڈاکٹرز اور انجینئرز پر طنز کرنے کے لیے ہاتھ
کی محنت مزدوری کی تحقیر کے سوا کچھ نہ ملا۔
ملکی صورتحال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مولانا کے پاس دھرنے کا
اخلاقی جواز ہے جبکہ خان صاحب کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ کم ازکم
حالات اس سے کہیں زیادہ بہتر تھے۔
راقم چونکہ عرصہ دراز سے ایک ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں جمہوریت کے بجائے
شخصی طرزِ
حکومت ہے، جس میں دھرنے، مارچ اور ریلیوں کا وجود کیا کوئی تصور بھی نہیں
کر سکتا اس لیے ذاتی طور پر ناچیز خان صاحب کے دھرنے سے خوش تھا اور نہ ہی
متوقع دھرنے کو اپنی دانست میں ملک وقوم کے مفاد میں سمجھتا ہے۔ لیکن ظاہر
ہے جمہوریت اور فسطائیت کے اصول الگ الگ ہیں۔ جمہوریت میں دھرنوں کو مخالف
سیاسی جماعتوں کا حق مانا جاتا ہے، لہذا جمہوریت میں اصل رائے میدانِ سیاست
کے گھاگ مولانا فضل الرحمان جیسی شخصیت کی ہی معتبر سمجھی جاسکتی ہے۔
مولانا صاحب کے دھرنے کی مخالفت کا حق شاید ہر سیاسی جماعت کو حاصل ہے لیکن
جس نے اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنے میں ہر روز الزام تراشیاں کیں، سول
نافرمانی پر لوگوں کو اکسایا، لوگوں کو ہنڈی کے ذریعہ رقم ارسال کرنے کی
تلقین کی، بجلی کے بلز کو سرِ عام جلا ڈالا، جس کی قیادت میں پی ٹی وی پر
حملہ کیا گیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے تک کو توڑا گیا اور میڈیا کے ساتھ،
خاصکر خواتین ورکرز کے ساتھ بھرپور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس نے گیلی
شلواریں، بزدل، چور، ڈیزل اور گدھے جیسے نازیبا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے
استعمال کئے، بات بات پر لعنت کی حتی کے پارلمینٹ ہاؤس پر بھی لعنت کرتے
ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کی ۔ اس کے پاس تو کم از کم دھرنے پر اعتراض کا
کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ اگر اس وقت اقتدار کے ہوس میں خان صاحب
کے ہاں یہ سب کچھ درست تھا تو اب فقط پر امن دھرنا ان کے ہاں نادرست کیسے
ٹھہرتا ہے؟
یقیناً خان صاحب کا سابقہ طرزِ عمل جمہوری تاریخ کا ایسا سیاہ باب ہے جسے
کبھی فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ سیاہ کرتوت حرف غلط کی طرح مٹ
پائیں گے۔ یہ ایسے داغ ہیں جو فقط اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کی جانے
والی ایک تقریر سے دھلنے والے نہیں۔ جس مہارت سے انہوں نے گزشتہ قلیل عرصہ
میں اپنی بے ہودہ تقاریر سے نئی جنریشن کو گالم گلوچ اور لعن طعن کا خوگر
بنایا ہے جب تک اسی محنت اور مہارت سے اسے اخلاقی پستی سے نہیں نکالیں گے
تب تک اخلاقیات کے بھاشن دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ
خان صاحب کو ذرا بھی اپنے وعدوں کا پاس نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق کسی کے دھرنے سے بہت پہلے
اس وقت استعفا دے دیتے جب پہلی بار بقول ان کے (اتنے سے لوگ) ان کی مخالفت
میں نکل آئے تھے۔ اب تو ہر کوچے سے "گو نیازی گو" کے نعرے اٹھ رہے ہیں۔
ہماری نظر میں جس طرح خان صاحب مولانا صاحب کے دھرنے کی مخالفت کا اخلاقی
جواز کھو چکے ہیں بالکل اسی طرح ان حضرات کو بھی مولانا صاحب کے دھرنے پر
اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں جن کو حکمران کے حقوق صرف عمران خان کے دورِ
حکومت میں یاد آگئے ہیں۔
تاہم دھرنا سیاست چونکہ خان صاحب کا مشن رہا ہے
اس لیے اسی مشن کو لیکر آگے بڑھنا مولانا صاحب جیسی سیاسی اور عبقری شخصیت
کے لیے مناسب ہو گا یا پھر خان صاحب کی نااہلی کے لیے وعدہ خلافی، دروغ
گوئی، پی ٹی وی اور پار لیمنٹ پر حملہ جیسے مقدمات کو دوبارہ کھلوانے کے
لیے جد وجہد؟؟
کہیں یہ پیچیدہ ڈور دھرنے کے ذریعہ سلجھانے کی کوشش میں مزید الجھتی نہ چلی
جائے!
|