شہزاد سلیم عباسی تاجر برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

آل پاکستان انجمن تاجران نے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ٹیکسوں کے خلاف 28 اور29 اکتوبر کو ملک گیر شٹرڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے ۔کچھ دن پہلے ملک بھر کے تاجروں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ۔تاجر کنونشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے تاجروں نے مندرجہ ذیل مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ۔ (1) دوہری ڈاکیومینٹیشن ختم کی جائیں(2) سبزی فروٹ اور غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں کی تجدید لائسنس فیس کم کی جائے(3) کاروبار میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جائے(4) استعمال شدہ موبائیل فون بزنس بحال کیا جائے(5) فکسڈ ٹیکس سکیم نافذ کی جائے(6) ٹرن اوور ٹیکس کی شرح 25.0 رکھی جائے(6) گاڑیوں کی ری امپورٹ کی اجازت دی ملنی چاہیے( 7) ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن سے استثنا دیا جائے ۔

جلسے کے بعد شرکاء پیدل مارچ کرتے ہوئے جب آبپار ہ اور پھر سرینا پہنچے تو انتظامیہ نے مذاکرات میں عافیت جانی۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل محمد وسیم ، اسسٹنسٹ کمشنر فیصل نعیم، ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید ، ایس پی عام نیازی اور دی ایس پی محمد لاسی کی کوششوں سے تاجروں اور ایف بی آر حکام مین مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ ایف بی آر کی طرف سے ممبر پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق اور ممبر آڈٹ نوشین جاوید نے تاجران کے وفدسے ملاقات کی۔ ایف بی آر اور تاجران میں مذاکرات کی ناکامی پر اجمل بلوچ اور ساتھی تاجران ڈٹ گئے اور کہا کہ ہم آئی ایم ایف کی تشکیل کردہ پالسیاں مسترد کرتے ہیں ۔تاجر بچاؤ ہرٹال میں اجمل بلوچ، حافظ یونس، نعیم میر، حاجی جمیل فخری، سیٹھ اسلم ، حاجی ہارون ، لالہ فرقان، جمیل پراچہ، شاہد غفور پرا چہ اور شرجیل میر شریک تھے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ ملک کو 72 سال سے لوٹ کر سارے کا سارا کھا نے والے تاجر حضرات اب ہٹ دھرمی اوردھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ ہمیشہ سنا کہ تاجر ملک کی ریڑ کی ہڈی ہوتے ہیں مگر اب جب کہ حکومت ان سے ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے تو یہ ریڑ کی ہڈی اس نازک ترین صورتحال میں لٹھ لیکر سڑکوں پر آنے کی بات کررہی ہے۔اس وقت تاجر حضرات جمہوری سوچ ، مثبت رویوں اور عدل انصاف کی صریحاََ نفی کر رہے ہیں جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے اور نہ خود کورجسٹر ڈ کریں گے ۔ پوچھا جانا چاہیے کہ ایک Individual اور ملازمت پیشہ اگر پنی آمدنی کو ظاہر کرسکتا ہے اور سالہا سال سے ہر قسم کا ٹیکس دے کر معیشت کے چڑھتے اشاریوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے تو پھر ایک تاجر کو بھی (جو لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں کماتا ہے ) معاشی و معاشرتی میں بہتری لانے کے لیے اپنی آمدنی ظاہر کرنی چاہیے ، مکمل ٹیکس ادا کر نا چاہیے، ناکہ آڑھتیوں اور ٹھیکیداروں کو Protection دے کر عدل و انصاف کا گلا گھونٹنا چاہیے ۔ ٹریڈر یونینز کا نام چاہیے جو بھی ہو ان کا کام اپنے مالی معاملات کی درستی اور ٹیکس سے بچنے کے لیے ملکی مالی اداروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جانا ہے ۔حکومتوں کو پریشرائز کرنے کے لیے ہزاروں لاکھوں یونینز اور پریشر گروپس ہیں جو اپنی ذاتی انا،تسکین اور مفادات کے لیے حکومتوں کے پہیے جام کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

یقینا یہ ملک بہت پیار ا ہے جسے عشروں سے لوٹا جارہا ہے اور اس کی معاشی و معاشرتی خوبصورتی کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے ۔مگر زندہ قومیں تو ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتی ہیں ۔ آئیے!! آج یہ عہد و پیمان بجا لاتے ہیں کہ اب ہر صورت ارض وطن کے وقار کو بحال کرنا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاجر برادری جو حقیقی معنو ں میں معیشت کا پہیہ گھماتی ہے ، حالات کی نزاکت کو سمجھے۔ ٹیکس ادا کرے ۔ رجسٹریشن کرائے اورحکومتی جائز پالیسیوں کو من وعن تسلیم کرے۔
مل جل کے ارض پاک کو رشک ارم کریں کچھ کام آپ کیجئے کچھ کا ہم کریں۔

 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 112615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.