بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو فطرت سلیمہ پر۔۔ الله تبارک
وتعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ" فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا" (روم
آیت نمبر ۳۰) ترجمہ :" قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو
پیدا کیا" ۔۔ حدیث شریف میں بھی فطرت سلیمہ کا ذکر کیا گیا فرمان نبوی صلی
اللہ علیہ والہ وسلم ہے: "کل مولود یولد علی الفطرة فابواه يهودانه أؤ
نصرانه اؤ يمجسانه ( صحيح بخارى كتاب الجنائز، ح : ١٣٥٨، صحيح مسلم كتاب
القدر ، ح ٢٦٥٨) ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اسکے والدین اسے
یہودی نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔۔
بچے کی تربیت میں سب سے اہم کردار والدین اور اساتذہ کا ہوتا ہے اس کی
اخلاقی، ذہنی ، حسی ، جسمانی ، جبلی و جذباتی تربیت کی ذمہ داری والدین اور
اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔۔ والدین اور اساتزہ کو چاہیے کہ پرورش مذہب کی
بنیاد پر کرے کیونکہ قرآن پاک اور رسول پاک کے ارشادات اور ان کی زندگی
ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔۔ مذہب حکمت دانائی پر زور دیا گیا۔۔ نبی پاک نے
صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت میں حکمت و دانائی کو پیش نظر رکھا ہے ۔۔
فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے :"الحکمة ضالة المؤمن". ترجمہ:
"حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے"
تربیت کرنے والا چاہے ماں ہو باپ ہو یا استاد انکے لیے ضروری ہے کہ پہلے
خود اپنی اصلاح کرے۔۔آیا جس برائی سے وہ بچے کو روک رہا ہے کہیں اس میں تو
موجود نہیں مثلا وہ خود جھوٹ بولتا ہے مگر بچے کو باربار منع کرتا ہے نتیجہ
یہ نکلتا ہے کہ بچہ جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتا۔۔ اس لیے تربیت کرنے والے کو
چاہیے کہ اخلاقی برائیوں سے پہلے خود اجتناب کرے کیونکہ بچوں میں نقالی کا
جزبہ فطری طور پر موجود ہوتا ہےاور ایک بچے کے لیے والدین اور اساتذہ کی
شخصیت ایک نمونہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انکا اخلاق ہی اس کی بہترین تربیت
کرسکتا ہے ۔۔
1. سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالی، رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اہل بیت
اطہار کی محبت کا بیچ بچے کے دل میں بو دیجیے ۔۔ پھر نماز کی تعلیم ، برے
کاموں سے بچنے اور اچھے کامکی ترغیب دلائیے ۔۔۔ ستر و حجاب اور دیگر فرض
علوم جن میں حج زکوة روزہ وغیرہ کی دعائیں اور طریقے سکھائے جائیں۔
2. دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنایا جائے جھگڑا فساد
اور کسی بھی قسم کے اذیت والے ماحول سے بچے کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔۔
3. اگر بچے سے کوئی غلطی ہوجائے تو والدین اور اساتذہ عفودرگزر سے کام لیں
اور پیار محبت سے اکیلے میں اس غلطی کی نشاندہی کر دیجیے سب کے سامنے نہ
ٹوکا جائے اور بار بار ٹوکنے سے بچے میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوتی ہے جو بعد میں
شدید غصے میں تبدیل ہوکر شخصیت میں شامل ہوجاتی ہے۔۔ جو کہ ایک منفی چیز
ہے۔۔۔ بچے کو اسکی غلطی بتانے کے بعد کوشش کیجیے کہ اسکی کوئی اچھائی بیان
کر دیں تاکہ وہ منفی پہلو مثبت پہلو میں تبدیل ہوجائے ۔ مثال کے طور پہ "
بچے نے جھوٹ بولا آپ نے اسکی نشاندہی کر دی۔۔ اب آپ کہیں کہ آپ بہت اچھے
بچے ہیں بڑوں کی بات مانتے ہیں دوسروں کی مدد کرتے ہیں سب کہتے ہیں علی بہت
اچھا بچہ ہے بہت سچا بھی کوئی بات نہیں انجانے میں ہوئی غلطی اب آپکو معلوم
ہوگیا آپ دوبارہ نہیں کیجیے گا" اسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بچہ جھوٹ بولنا
چھوڑ دے گا ۔ کیسے؟؟ وہ ایسے کہ بچہ لاشعوری طور پر وہ کام کر جاتا ہے جو
غلط ہوتی ہیں ۔۔ اب پتہ چل گیا جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں اس نے میٹھے لہجے
کی تاثیر میں ادا ہونے والے لفظ کو اپنے اندر جذب کرلیا۔۔۔
4. بچوں کو ایسا کام ضرور دیجیے یا کرنے دیجیے جس سے ان میں خود اعتمادی
پیدا ہو۔۔ مثلا بچہ نئی چیز کی کھوج میں اپنے کھلونوں کو کھول رہا ہے تو
کھولنے دیجیے کچھ بچوں کو حشرات الارض کی کھوج میں دلچسپی ہوتی ہے ۔۔۔کرنے
دیجیے۔۔ ایسے کرنے سے خود اعتمادی پیدا ہوگی یاد رکھیے بار بار روک ٹوک
کرنے سے بچے کی خود اعتمادی مجروح ہوجاتی ہے۔
5. خواہشوں پر قابو پانے کی تربیت ایسے کیجیے کہ بچے کو اس کی من پسند چیز
لا کر دی جائے پھر اسے بتایا جائے کہ اس چیز میں اپکے بہن بھائیوں کا بھی
حصہ ہے بچہ سمجھ لے گا کہ یہ اسکو مل بانٹ کر کھانا ہے جب وہ ایسا کرے گا
تو اس میں بانٹ کر کھانے کی اور دیگر اشیاء میں بھی دوسروں سے بانٹنے کی
عادت پروان چڑھے گی اور دوسروں کے لیے احساس اور صبر کا جذبہ بھی پیدا
ہوگا۔۔ اور بچہ اپنی من پسند چیز ملنے پر شکر ادا کرنا سیکھے گا۔۔
6. بچے کو مطالعے کا عادی بنائیے ایسی کتابیں پڑھنے کو دی جائیں جو اصلاحی
و تربیتی پہلو کی حامل ہو۔۔ اسلامی تاریخ سیرت کی کتب وغیرہ اس طرح اس میں
تحقیق کرنے اور جاننے کی صلاحیت پیدا ہوگی ۔۔۔
7. بچے کے لیے ایک خاص الماری بنائیے جہاں وہ اپنی چیزون کو منظم انداز میں
رکھنے کا سلیقہ سیکھے ۔۔ اس طرح اس کو ہر کام خود کرنے کی عادت پرتی ہے۔۔
8. بعض ماں باپ بے جا لاڈ پیار کرتے ہیں اس سے بچنا چاہیے اس سے ضد شخصیت
میں جڑ پکڑتی ہے۔۔ اسی طرح بعض والدین بے جا سختی کر کے بات بات پر سزا دے
کر بچے میں باغی پن پیدا کر دیتے ہیں لہذا معتدل رویے کو اختیار کرنا
چاہیے۔
9. بچوں کی تعلیم و تربیت میں عمر کا لحاظ کرنا بے حد ضروری ہے ان پر ضرورت
سے زیادہ پڑھائی کا بوجھ ڈالنے اور انکی صلاحیتوں سے بڑھ کر ان سے کام لینے
سے انکی صلاحیتیں نکھرنے کے بجائے مرجھا جاتی ہیں بلکل ایک پھول کی طرح جس
کو بعد مین پھر جتنا بھی پانی ڈالو دوبارہ نہین کھل پاتا۔
10. اپنی نصیحتوں کو بچوں کے زہن میں ٹھونسنے کے بجائے بٹھانے کی کوشش کریں
اسکا طریقہ سادہ سا ۔۔ نرم لہجہ۔۔ شیریں گفتار ۔۔ خوش مزاج ۔۔ لطافت و مزاح
کو اپنائیے ، کہاوتوں سے اشاروں سے بات کو سمجھائیے ۔۔بچے قصے کہانیوں میں
بہت دلچسپی لیتے ہیں انہیں سبق آموز کہانیاں سنائیے۔
11. سوالات کرنے کا عادی بنائیے آپ کہانی سناتے وقت سوالات پوچھیے تاکہ بچے
بھی سوال کریں اس کے بارے جو ان کی سمجھ نہیں آیا۔۔ تاکہ انکے ذہن سوچیں جب
ذہن میں سوچ ہوگی سوال ہوگا وہ نئی چیزون کی کھوج لگائیں گے۔۔
12. بچہ جب بولنا سیکھ لے تو اسکو قرآنی آیات اور مختصر احادیث یاد کروائیں
تاکہ اس کا ذہن اچھی چیز کو فورا سیکھنے سمجھنے اور سیکھنے کے لیے تیار
ہوجائے اس سے ایک اور فائدہ بھی ہوتا ہے اور وہ فائدہ ہے اسکے لب و لہجے کی
درستگی اور اسکی شائستگی۔۔
13. دلچسپ کھیل و مشاغل کا انتظام کریں اور اسکو ایسے مواقع فراہم کریں جن
میں وہ کھیل کود کر سیکھ سکے سمجھ سکے ۔۔ ایس سرگرمیاں ضرور کروائیں جن میں
اس کی صلاحتیں اجاگر ہوں ذہنی نشو نما ہو۔۔ اور وہ خود کو بااعتماد محسوس
کرے ۔
14. یاد رکھیے اچھی تعلیم و تربیت ہر بچے کا حق ہے اور ان حقوق کی ذمہ داری
والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اس کو بہترین تعلیم دلوانے کے لیے ایک بہترین
ادارے کا انتخاب کریں۔ امام غزالی علیہ الرحمة فرماتے ہیں "بچہ والدین کے
پاس امانت ہے اس کا دل ایک قیمتی جوہر ہے اگر بچے کو بھلائی کا عادی بنایا
جائے اور اچھی تعلیم دی جائے تو بچہ اسی نہج پر پروان چڑھتا ہےاور دنیا و
آخرت میں سعادت حاصل کرتا ہے ۔۔ اگر بچے کو بری باتوں کا عادی بنایا جائے
یا اسکی تربیت میں غفلت برتی جائے اور اسے جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو
بد بختی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے"(احیاءالعلوم)
بحیثیت والدین بحیثیت استاد ہمیں اپنی زمہ داری کو پورا کرنے کی سعی کرنی
چاہیے تاکہ معاشرے میں ایسے افراد کہ جن شخصیت پر اثر ہوتی ہے وافر مقدار
میں پائے جائیں جو دنیا میں اپنا لوہا منوانے کو تیار ہوں۔۔ اللہ عزوجل
ہماری نسل نو میں ایسے جانباز پیدا فرمائے جن کی للکار سے یہود و نصاری کے
محل لرز اٹھیں اور امت مسلمہ سکھ کا سانس لے آمین
|