دسہرہ کے بعد عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد سے متعلق اپنی
سماعت مکمل کردی اور توقع ہے کہ دیوالی کے بعد فیصلہ سنا دیا جائے گا ۔ وہ
فیصلہ کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہچیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت
میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس
ایس اے نذیر پر مشتمل پانچ ججوں کی بنچ کو فیصلہ دینا ہے ۔ ان میں سے کتنے
اپنا فیصلہ کرتے ہیں اور کتنے کسی دوسرے کی فیصلے کی تائید کردیتے ہیں یہ
ہنوز صیغۂ راز میں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلے کی ابتداء میں کسی منصف کا
خیال کچھ اور ہو اور درمیان میں وہ شواہد پر غور کرے تو اس کی رائے بدل
جائے۔ اس کے علاوہ کون اپنے ضمیر کی آواز کا کتنا خیال رکھتا ہے اور کس پر
خارجی اور باطنی دباو کتنا اثر انداز ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی
ناممکن ہے ۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے سبکدوشی سے قبل اس معاملے کونمٹانے میں جس
غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اس سے خیر کی امید ہے ورنہ وہ ٹال مٹول کر
سکون کے ساتھ ریٹائر ہوسکتے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۱۹ کے قومی نتائج
سے قبل انہوں نے رافیل سے لے کر سی بی آئی تک مرکزی حکومت کی خوب سرزنش کی
تھی لیکن ابھی حال میں کشمیر اور چدمبرم کے معاملات میں اس نے نرمی کا
مظاہرہ کیا ہے اب دیکھنا آخری فیصلہ کیا سناتے ہیں ۔
نریندر مودی اور امیت شاہ تو بابری مسجد اور رام مندر کے معاملے میں لب
کشائی سے کترا تے ہیں مگربی جے پی چھٹبھیانیتاوں کے صبر کا پیالہ چھلکنے
لگا ہے۔دیو بند بی جے پیکے صدر گجراج رانا نے۱۹ ستمبر کی شب کہہ
دیا،’ایودھیا مسئلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جلد ہی آنے کی امید اور یقین ہے
کہ یہ رام مندر کے حق میں آئے گا۔حالانکہ اس سے ماحول بگڑ سکتا ہے،اس لیے
سونے کے گہنوں اور چاندی کے برتنوں کے بجائے لوہے کی تلواریں جمع کرنا
مناسب ہے۔ ضرورت کے وقت میں یہ تلواریں ہماری حفاظت میں کام آئیں گی۔‘
مرکزمیں مودی اور صوبے میں یوگی کے ہوتے اپنی حفاظت کے لیے تلواروں پر
بھروسہ دراصل اپنی ہی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ بی جے پی کو
رانا کی صفائی کے باوجود اس بیان سے پلہ ّ جھاڑنا پڑا۔ اترپردیش کے پارٹی
ترجمان چندر موہن نے اس بابت یہ وضاحت کی کہ،بی جے پی اس زبان کی تائید
نہیں کرتی رانا کا بیان ان کی نجی سوچ ہے۔پارٹی کی واضح ہدایت ہے کہ ہر کام
یا بیان قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے اور کوئی فردقانون سے بالاتر نہیں
ہے۔
ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کےفیصلے کی ممکنہ تاریخ سے پندرہ بیس دن قبل
آر ایس ایس نے 31 اکتوبر سے ہریدوار میں نظریاتی مشیروں کاایک اہم اجلاس
طلب کرلیا ہے۔اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت،
بھیا جی جوشی، دتاترے ہسبولے اور کرشن گوپال سمیت آر ایس ایس کے اہم
عہدیدار شریک ہوں گے۔ اس نشست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر پانچ سال
میں ایک بار منعقد ہوتی ہے لیکن غالب گمان یہ ہے کہ ایودھیا مقدمہ سے پیدا
ہونے والی صورت حال اورمتعلقہ مسائل پر تبادلہ خیال اس کا مرکزی موضوع ہوگا
۔سنگھ سےمنسلک سبھی اداروں کے پرچارکوں کا 4 نومبر تک چلنے والی اسنشست میں
شامل ہونا اس کی اہمیت کا کا غماز ہے۔ بعید نہیں کہ یہ لوگ رام مندر پرکوئی
قرارداد پاس کردیں لیکن شاید مودی سرکار اس کی اجازت نہ دے کیونکہ بی جے پی
بھی سبھی اہم نشستوں میں شریک ہوگی۔اس میٹنگ کے ذریعہ سنگھ اپنے سارے ملحق
گروہوں کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے گالیکن وہ بی جے پی
کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
ایک زمانے تک جب بی جے پی یا جن سنگھ آر ایس ایس کی انگلی پکڑ چلتے تھے تو
وہ ان پر اپنی مرضی چلا دیتا تھا لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ بی جے پی جوان
ہوگئی ہے اور سنگھ بوڑھا ہوچکا ہے اس لیے اب سنگھ کی بی جے پی پر نہیں
چلتی۔ بی جے پی کا بلیک میلنگ والافن بھی سنگھ دیکھ چکا ہے اس لیے اب وہ
کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے اقتدار کے سبب وہ
عدلیہ کو مرعوب تو کرسکتا ہے لیکن حکومت میں رہتے ہوے مخالفت ممکن نہیں
ہے۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے کسی ایسے فیصلے کو نافذ کرنا پڑ
جائے جو اس کی مرضی کے خلاف ہوتو وہ اس کی طاقتور شبیہ بھکتوں کی نظر میں
پاش پاش ہو جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ اور مودی تو یوگی بھی اس بابت بہت
محتاط ہیں لیکن آر ایس ایس لیڈر اور موریہ جیسے بی جے پی والے بھی آئے دن
رام مندر کے حق میں فیصلہ آنے کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے وی ایچ پی
کے سرکردہ عہدیدار ملند پرانڈے نے امید ظاہر کی تھی کہ سبھی ثبوت رام للا
کے حق میں ہیں اور آئندہ دیوالی تک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ممکن ہو
سکے گی۔ اس کے باوجود چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سبکدوشی سے پندرہ بیس دن پہلے
اور بابری مسجد انہدام کی برسی سے ایک مہینہ قبل سنگھ کے زیر اہتمام یہ
پانچ روزہ اجلاس کا انعقاد اس کی فکر مندی کا ثبوت ہے۔
سنگھ پریوار کے لیے رام مندر کا مسئلہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی ثابت
ہوا۔ اس نے اس کا بہت فائدہ اٹھایا ہے ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی
کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی کتاب ’ایودھیا-رام جنم بھومی بابری مسجد وواد
(تنازعہ) کا سچ‘ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کی موجودگی میںتین دہائی قبل
سوامی پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق
کرلیا تھا لیکن جب وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل اس حل پر مہر لگانے
کے لیے آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب
پھٹکار لگائی گئی۔ وہ اس مرغی کو ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ رام مندر کے
ذریعے ہندو ؤں میں آنے والی بیداری کادیورس بھر پورفائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
ویسے۲ نشستوں والی بی جے پی کو سیاسی حاشیے سے اٹھاکر حزب اختلاف کی جماعت
اور اب اقتدار تک پہنچانے میں اس تنازع نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔
سنگھ کو پتہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کو لے ایک اور مقدمہ ہنوز سی بی
آئی کی عدالت میں زیر سماعت ۔ اترپردیش کی صوبائی یا مرکز کی مودی حکومت
اس پر ابھی تک اثر انداز نہیں ہوسکی ہے۔ کانگریس اور سماجوادی کے زمانے میں
بابری مسجد کو منہدم کرنے والے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے کئی لیڈروں
کومجرمانہ سازش رچنے کے الزام سے بری کردیا گیا ۔ اس فیصلے کے خلاف مودی یگ
میں عدالت عظمی کے اندر اپیل کرکے سی بی آئی نے کہا تھا کہ وہ اپنی پالیسی
کا تعین خود کرتی ہے اور کسی سے متاثر نہیں ہوتی ہے ۔ سی بی آئی نے اعتراف
کیا تھا کہ سینئر بی جے پی لیڈروں کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کے الزامات
ہٹانے کی کارروائی کا مطالبہ اس نے نہیں کیا ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے ۶
مارچ ۲۰۱۷ کو تکنیکی بنیادوں پر ایک خارج شدہ مقدمہ کی لکھنو عدالت میں
سماعت کا حکم دے دیا ۔اس کیس میں ایل کے اڈوانی اورمرلی منوہر جوشی، اوما
بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت کئی سنگھ رہنما ملوث ہیں ۔ سپریم کورٹ نے جب
اُن کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات کے تحت مقدمہ کے احیاء کا اشارہ دیا
تو مرکزی حکومت اس کے آگے بے بس ہوگئی۔ جسٹس پی سی گھوش اور جسٹس آر ایف
نریمان پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے تکنیکی بنیادوں پر مقدمے کے اخراج کو
ٹھکرا دیا ۔ بابری مسجد کی شہادت کا یہ کیس پہلے دو الگ الگ عدالتوں میں
میں چل رہا تھا اس کو ایک جگہ کر دیا۔
آر ایس ایس کو اپنی طاقت کا اندازہ تو ہے لیکن وہ کسی خوش فہمی کا شکار
نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سابق جسٹس دیپک مشرا نے مقدمہ کو دوبارہ شروع کرتے
ہوئے صاف کہا تھا کہ یہ معاملہ آستھا (عقیدے) کا نہیں بلکہ خطۂ اراضی کی
ملکیت کا ہے ۔آستھا سے ہٹ کر شواہد کی بات آتے ہی ہندو فریق کو پسینہ
چھوٹنے لگتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عدلیہ میں الہ باد ہائی کورٹ کے سابق جج
جیسے بھی لوگ موجود ہیں جو ۸ لاکھ سال قبل مسیح میں رام کے ایودھیا میں
موجودگی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو جنوبی ایشیا میں
اتنے سال پہلے کسی انسانی وجود کے آثار نہیں ملتے۔ سنگھ پریوار کو ایسے
لوگوں پر بھروسہ ہے لیکن اس کو پریشانی جسٹس رنجن گوگوئی جیسے لوگوں سے ہے
جو بار بار ملکیت کا ثبوت مانگتے ہیں۔ یہاں تک کہ نرموہی اکھاڑے کو یہ کہنا
پڑتا ہے کہ ۱۹۸۲ میں ڈاکو سارے شواہد لے گئے۔سپریم کورٹ کی حالیہ سماعت
میں آخری دن دو حیرت انگیز اور متضاد معاملات رونما ہوئے ایک تو یہ خبر
آئی کہ سنی وقف بورڈ اپنے مطالبے سےدستبردار ہونے کے لیے تیار ہوگیا اور
دوسرے ڈاکٹر راجیو دھون نے رام مندر کے نقشے کو عدالت میں پھاڑ دیا۔ اب
دیکھنا یہ کہ عدالت سنی وقف بورڈ کی مانند کمزوری دکھاتی ہے یا راجیو دھون
کی طرح دلیری کا مظاہرہ کرتی ہے۔
|