شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کے حالیہ دورہ پاکستان
کے حوالے سے کچھ ملے جے خیالات درج ذیل حالیؤں کی صورت میں محترم و مکرم
قارئین کی نذر کئے جاتے ہیں۔ امید کے ساتھ کی پسند آئیں گے اور حوصلہ
افزائی فرمائیں گے۔
۱۔ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کے پاکستانی دورے پر ہمارا میڈیا یوں
دھمالیں ڈال رہا ہے جیسے حضرت بابا بلہے شاہؒ کے میلے پر ملنگ دھمالیں
ڈالتے ہیں۔
۲۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے لئے ہمارے شیدائی پن کو دیکھ کر انگریز ضرور
پچھتاتے ہوں گے کہ ان کا برِ صغیر چھوڑنے کا فیصلہ غلط تھا۔
۳۔ اگر انگریزوں کو ہمارے شیدائی پن کا اس وقت اندازا ہو جاتا تو ضرور ان
کا راج مزید طوالت اختیار کر لیتا۔
۴۔ گوروں اور ہمارے لوگوں کے مابین نفرت پتہ نہیں کس بد خواہ نے پیدا کر دی۔
۵۔ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل ہے اور وہ اس کی سرپرستی بھی کرتے ہیں، اچھی
بات ہے، ہم بھی تو کرکٹ کو قومی کھیل ہی بنائے ہوئے ہیں۔ ہاکی کو تو کوئی
منہ ہی نہیں لگاتا۔
۶۔لگے ہاتھوں شہزادے اور شہزادی کو لائن آف کنٹرول پر بھی گھما لاتے، شاید
اسی بہانے کشمیر کا کرفیو عالمی میڈیا کی خبر بن جا تا۔
۷۔ بیگانی ملکہ اور شہزادے، شہزادیوں کو اپنے سمجھنا کیسی معصومیت ہے۔
۸۔ شہزادے اور شہزادی کے استقبال کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم آج بھی ان
کے ماتحت ہوں۔
۹۔ مہمان نوازی اچھی بات ہے، ماتحتی اچھی بات نہیں۔
۱۰۔ شہزادی اور شہزادے کی شخصیت بہت سے لوگوں کے لئے قابلِ اتباع کہی جا
سکتی ہے۔
۱۱۔ اپنی پہچان اور دوسروں کی امان اس دورے کا حاصل کہی جا سکتی ہے۔
۱۲۔ دورے میں ثقافتی، مذہبی، تعلیمی، سیاحتی، سیاسی، اخلاقی اور کرکٹی پہلو
نمایاں رہے۔
۱۳۔ دورے کا ایک میسج لوگوں کے ذہنوں سے احساسِ کمتری کم کرنا بھی کہا جا
سکتا ہے۔
۱۴۔ ایسے دورے سے اچھی اخلاقیات کو فروغ مل سکتا ہے اگر ایسا رویہ باقی
لوگوں کے ساتھ بھی اپنایا جائے تو۔
۱۵۔ برطانیہ کے شاہی لوگوں کے دورے سے رنگوں میں قید اور دفن مغل شہنشاہِ
بہادر شاہ ظفر اور اس کے ساتھیوں کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔
۱۶۔ بہادر شاہ ظفر کی روح ابھی تک دہلی میں واقع ظفر محل میں مخصوص کی گئی
جگہ میں دفن کے لئے بیتاب ہو گی۔
۱۷۔ برطانیہ کا برِ صغیر اور کئی اور ریاستوں اور ملکوں کی بادشاہتیں ختم
کرنا اور اپنی بادشاہت ، چاہے برائے نام ہی سہی، برقرار رکھنا اور شاہی
لوگوں کا دنیا بھر سے احترام کرانا دوہرا معیار محسوس ہوتا ہے۔
۱۸۔ ماضی کی بہت سی باتیں اب ماضی میں ہی دفن ہو چکی ہیں اور آج کا انسان
آج کے حوالے سے سوچتا ہے۔
۱۹۔ ملکہ برطانیہ کا آج بھی ایسا ہی پروٹوکول ہے جیسے ماتحت ملکوں کی آزادی
سے پہلے تھا ۔
۲۰۔ اس میں انگریز کی تعمیر کردہ مختلف شعبوں میں مضبوط بنیادوں کو بھی
کریڈٹ جاتا ہے جو وہ ان علاقوں میں بنا گئے۔
۲۱۔ انگریز اپنی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ دوسروں کی
پہچان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اگر کوئی خود ہی اپنی زبان،
لباس، اور ثقافت کی قدر نہ کرے تو اس میں انگریز کیا کرے۔
۲۲۔ مہمان کا احترام بہت اچھی بات ہے جو کہ دیکھنے میں آئی اس کے ساتھ ساتھ
انسان کا احترام بھی تو کیا جائے۔
۲۳۔ اسلام، رواداری کا سب سے بڑا داعی ہے، اس مقصد کے لئے کسی اور کی طرف
دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔
۲۴۔ ہمیں اپنے ملک کے باشندوں، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی
شہزادروں اور شہزادیوں جیسا رویا اپنانا چاہیئے۔
۲۵۔ کشمیر اب سیاسی سے زیادہ ایک انسانی مسئلہ بن گیا ہے، اس کی طرف بھی
شہزادے اور شہزادی کی توجہ دلانا چاہیئے تھی۔
۲۶۔ دورے کا ایک میسج یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں سیاسی پارٹیوں، فرقوں،
اور علاقائی تعصبات سے باہر نکل کر ملک کے لئے سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔
۲۷۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہم جن کی اتنی عزت کرتے ہیں وہ ہماری
کتنی عزت فرماتے ہیں۔
۲۸۔ تعلقات برابری کی سطح پر ہوں تو ہی برقرار رہ سکتے ہیں، ماتحتی تو مزید
کمتر بنا دیتی ہے۔
۲۹۔ دورے کا پر امن طور پر اور خوش اسلوبی سے مکمل ہونا ہمارے لئے خوش آئند
ہے۔
۳۰۔ ہمیں تنگ لباس سے کھلے لباس کی طرف، برہنگی سے پردہ داری کی طرف اور
تنگ نظری سے وسیع نظری کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔
۳۱۔ ہمیں بحثیت قوم دنیا میں ابھرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہو گا جن میں سے
سب سے پہلے مسلمان اور پاکستانی بننا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|