اصلاحات نہیں، قانون کا عملی نفاذ ضروری ہے

پاکستان بننے کے بعد جلد ہی قائداعظم و لیاقت علی خان اس دنیا سے رخصت ہوگئے جسکے بعد جاگیرداروں و موقع پرستوں نے آہستہ آہستہ ملک پر گرفت مضبوط کرلی اور پورا نظام محض چند خاندانوں کے ہاتھ میں آگیا یوں ملک و قوم موروثیت کے قبضے میں آگئی جس کی وجہ سے بہت سی برائیوں نے جنم لیا اور آہستہ آہستہ وہ معاشرے میں سرایت کرتی گئیں، قانون تو برائے نام ہی رہ گیا تھا اس کی جگہ وزیروں، مشیروں اور بیوروکریٹس کی مرضی و منشا نے لے لی تھی، حکومتی ظاہری ڈھانچے، شان و شوکت میں بیپناہ اضافہ ہوگیا تھا، جمہوریت تو تھی مگر درحقیقت یہ مطلقالعنانیت میں تبدیل ہوکر رہ گئی تھی حکومتی عناصر میں جسکا جہاں بس چلا زمینوں، جاگیروں، جائیدادوں پہ قبضہ کرلیا ہر جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کے پہاڑ بنانا ہی اصل مقصد تھا، سرکاری خزانے کو اپنی مرضی سے عیش و عشرت یا ذاتی مفاد کے لیے خرچ کرنا معمول بن گیا تھا، کسی بھی قسم کی روک ٹوک یا احتساب کا تصور ہی ختم ہوکر رہ گیا تھا، اس صورتحال کی وجہ سے عوام بیچاری مایوس ہوکر ہی رہ گئی تھی ایسے میں عمران خان نے کرپشن، لوٹ مار، موروثیت، اسٹیٹس کو کو سرے سے ختم کرنے اور تباہ حال نظام کو ازسر نو مناسب خطوط پر استوار کرنے کے لیے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو عوام کی امیدیں ان سے وابستہ ہوگئیں، ایک سیٹ والے عمران خان کو دیکھتے ہی دیکھتے غیرمعمولی پذیرائی ملی عوام کا جم غفیر ان کے گرد جمع ہوگیا، ہوا کا رخ دیکھ کر کچھ موقع پرست بھی ان کے قافلے میں شامل ہوگئے، الیکشن 2018 میں تحریک انصاف کو واضح کامیابی حاصل ہوئی عمران خان وزیراعظم منتخب ہوگئے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کپتان کی حکومت کو پہلے دن سے ہی مختلف بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جو انہیں ورثے میں ملے، بیشک ریاست کے اندر مذہبی، قومی، لسانی، صوبائی تعصبات سے لیکر مالی بحران کی وجہ سے پہلے سے ہی موجود باہمی خلفشار کا زمہ دار عمران خان نہیں، بیشک مہنگائی و دیگر مسائل بھی پچھلی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہیں جن کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر اندرونی و بیرونی دشمن کبھی ملکی سلامتی کے اداروں پہ زبانی حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی ملکی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، علاقائی و لسانی تعصبات کو ابھارنے کی کوشش ہوتی ہے یا سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے حکومت کو بلیک میل کیا جارہا ہے نتیجہ وہی ملکی ترقی کا پہیہ ڈی ریل کرنا ہے اس کے جواب میں حکومت و اداروں کی جانب سے ایک ہی لفظ ''وطن'' اور ایک ہی بات ''بیرونی ایجنڈا یا ملک دشمنی'' بار بار لوگوں کی سوچ و جذبات پہ طاری کروادئیے جاتے ہیں مگر کب تک؟ کیا تمام خلفشار و بگاڑ کا حل صرف وطن وطن وطن کرلینے سے ممکن ہوپائیگا؟ کیا اس بات سے عوام اطمینان رکھ پائیگی؟ یقیناً نہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ایک دن آئیگا جب عوام اسٹیٹس کو کی طرح ان وطنی نعروں سے بھی بیزار ہوجائیگی، اور یہ انتشار خلفشار ہر لحظہ، ہر منزل، ہر موڑ پر پاکستانی معاشرے کا جزو لاینفک رہیگا اس سے جان چھڑانے کا واحد حل یہی ہے جو عوام کی بھی دیرینہ خواہش ہے اور کپتان کا بھی خواب لیکن کپتان صاحب کو بھی سرمایہ داروں و بیوروکریٹس نے اصلاحات کا چورن دیکر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے جس میں الجھ کر کپتان صاحب کے پانچ سال پورے ہوجانے ہیں نتیجہ زیرو رہیگا یوں اسٹیٹس کو جیت جائیگا کپتان کے پاس کیا منہ رہیگا جو وہ عوام کے سامنے جائینگے، عمر بن عبدالعزیز نے جب حکومت سنبھالی تو بگاڑ ہی بگاڑ موجود تھا جسے سختی کیساتھ ٹھیک کیا گیا، دنیا کے کسی بھی بگڑے معاشرے کی تاریخ اٹھالیں اس کے سدھارنے کے لیے سختی سے کام لیا گیا تو وہ معاشرے آج دنیا میں مثالی معاشرے ہیں جبکہ اس کے برعکس جہاں بھی ڈھیل ڈھال سے کام لیا گیا تو بد سے بدتر حالت کی طرف گیا، تحریک انصاف کو بھی اصلاحات قانون سازی کے چکر میں ڈال کر اصل راہ سے ہٹایا جارہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سختی کو اپنایا جاتا، صرف دو چار افراد کو سزا دی جاتی تو سب کے سب سیدھے ہوجاتے، قانون تو پہلے بھی موجود تھا اور ہے، اصلہ مسئلہ قانون کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ قانون کے عملی نفاذ کا ہے جو ہے تو کافی مشکل اور خطرناک لیکن اگر خان صاحب اسے نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان سے تمام مسائل ازخود ختم ہوجائینگے، حقدار کو اس کا حق ملنے لگے گا، امیر و غریب، طاقتور و کمزور کا فرق بھی ختم ہوجائیگا، خان صاحب کا نام بھی ہمیشہ زندہ رہ جائیگا کہ وہ کامیاب انقلابی ہیں، لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ پوری سنجیدگی اور زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ طور پہ قانون کے عملی نفاذ کو یقینی بنایا جائے، سزا و جزا کا عملی نفاذ یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ کسی کی رضامندی یا ناراضگی کا لحاظ کیا جائے نہ ہی اپنے پرائے کا خیال کیا جائے اور پوری جرات و ہمت کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کرکے دکھایا جائے تو تمام مسائل از خود ختم ہوجائینگے۔
 

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 101455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.