علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو
کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت علیہ السلام کا فرمان
عالیشان ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اسی طرح
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت علیہ السلام نے چودھراہٹ کا معیار
دنیا کی دولت ، برادری یا کسی اور چیز کو نہیں بلکہ علم دین کو بتایا اور
پیارے پیغمبر آخر الزماں کا فرمان عالیشان ہے کہ ” علماءانبیاء کے وارث ہیں
۔ “
لیکن جب یہی علماء اپنا کردار اور طرزِ عمل غلط کر بیٹھیں تو پھر قوموں کی
تباہی یقینی بن جایا کرتی ہے ۔ بات کر رہا تھا علم کی فضیلت و اہمیت کی تو
علم حاصل کرنے کے لیے انسان مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے ۔ جن میں ایک بہتر
ذریعہ مختلف کتب ، جرائد و رسائل کا مطالعہ بھی ہے ۔ کیونکہ مطالعہ خواہ
کسی بھی چیز کا ہو ، انسان کے ذہن ، اس کی سوچ اور فکر پر ضرور اثر انداز
ہوتا ہے ۔ اس لیے مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہئیے
جس سے نہ صرف انسان کی دینی تربیت ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قابل بھی
ہو جائے کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے اپنا
کردار ادا کر سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وقت ملک بھر میں مختلف بک
سٹالوں پر جہاں دیگر جرائد و رسائل فروخت ہو رہے ہیں ، وہیں پر عریانی و
فحاشی پر مبنی لٹریچر بھی سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی
بھی باشعور ، عقلمند اور سچا مسلمان ایسا لٹریچر پڑھنا چاہتا ہو ۔ کیونکہ
ایسے لٹریچر میں نہ صرف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ ماں ،
بہن ، بیٹی ، والد ، بیٹے اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کو بھی
سربازار رسوا کیا جا رہا ہے ۔
دل اس وقت مزید دکھی ہوا جب میں نے سکول کے نوجوان طلبہ کے ساتھ ساتھ چند
طالبات کو بھی یہ فحش لٹریچر خریدتے دیکھا اور سوچنے لگا کہ کیا ہم حقیقتاً
مسلمان ہیں ؟ کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں ؟ کیا ہم اس نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے ایک مرتبہ امہات المومنین کو فقط اس بات پر
انتہائی سخت انداز میں ڈانٹا تھا کہ وہ ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن ام
مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ننگے منہ آ گئی تھیں اور عذر یہ تھا کہ
وہ صحابی رسول نابینا تھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا تھا ۔ کیا ہم سیدہ فاطمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ماننے والے ہیں جن کی وصیت یہ تھی کہ ان کا جنازہ
بھی اندھیرے میں اٹھایا جائے ۔ کیا ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نبی
رحمت علیہ السلام کا فرمانِ عالیشان ہے کہ زنا اور بدکاری اتنا کبیرہ گناہ
ہے کہ اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص زنا کرے تو اللہ رب العزت اس حد تک
غضبناک ہوتے ہیں کہ چاہیں تو اس بستی کو تباہ و برباد کر دیں ۔ کیا ہم اس
قرآن پاک کو ماننے والے ہیں جس میں ہم سب کو فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع
کیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں کس روش
پر چل نکلے ہیں ؟
بحیثیت پاکستانی قوم ہم تو ایسے بدبخت ثابت ہوئے کہ ہم اپنے ازلی دشمن
بھارت کی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی کے ان الفاظ کو بھول گئے ،
جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہم نے پاکستان سے میدان جنگ میں نہیں بلکہ اپنی
تہذیب اور کلچر پھیلا کر فتح حاصل کی ہے ۔ “ ہم بھول گئے کہ ایک مرتبہ
ہمارے پیرومرشد سید الکونین ، کبریا و تاجدار انبیاء، سیدنا محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ پیارے
پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک وقت آئے گا میری
امت پر اس طرح عذاب الٰہی آئے گا کہ آسمان سے پتھر برسیں گے ۔ زمین میں
دھنسا دئیے جائیں گے ۔ ان کی شکلیں مسخ کر دی جائیں گی ۔ صحابہ نے یہ سن کر
عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت لوگ دائرہ اسلام سے
خارج ہو جائیں گے ؟ تو نبی رحمت علیہ السلام کا جواب تھا نہیں ۔ ان میں
روزہ دار بھی ہوں گے ، نمازی بھی ہوں گے ، حج کرنے والے بھی ہوں گے ، صدقات
و خیرات کرنے والے بھی ہوں گے ، یہاں تک کہ جہاد کرنے والے مجاہد بھی ہوں
گے ۔ صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ! پھر یہ عذاب کس وجہ
سے آئے گا ؟ تو جواب ملا کہ اس وقت لوگوں میں شراب اور جوا عام ہو جائے گا
۔ زنا اور بدکاری پھیل جائے گی اور گانا بجانا عام ہو جائے گا ۔ اے مسلم
نوجوانوں ! غور کرو کہ آج ہم یہ فحش لٹریچر خرید کر ، پڑھ کر اپنے ملک کی
کون سی خدمت کر رہے ہیں اور کیا ہم اپنے رب کو راضی کر رہے ہیں اور ایسا
لٹریچر فروخت کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ دنیا کے چند ٹکوں کے
فائدے کے لیے کتنے لوگوں کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں اور اپنے ملک و
ملت اور مذہب کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ ایسا لٹریچر فروخت کرنے والوں ! یاد
رکھو قیامت کے دن اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دو گے؟
اگر ایک نوجوان بھی تمہارا لٹریچر پڑھ کر بے راہ روی کا شکار ہو گیا تو اس
کے ذمہ دار بھی تم ہو گے ۔ جہاں پر قیامت کے روز وہ گناہ کرنے والا سزا کا
مستحق ٹھہرے گا ، وہیں پر تم بھی مجرم ہوگے ۔ کیونکہ تم لوگ ایسے نوجوانوں
کو گناہ پر ابھارنے کا سبب بنتے ہو اور پھر ایسے حکمران جن کی حکومت میں یہ
سب کچھ ہو رہا ہو اور وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہوں ۔ اس کی روک تھام کے لیے
مناسب اقدامات نہ کریں ، وہ بھی کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے ۔ ان
حکمرانوں کے بھی گریبان ہوں گے ۔ جبکہ ان گناہوں میں لتھڑے ہوئے نوجوانوں
کے شریف والدین کے ہاتھ ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے یہ حکمران........ ؟
حکمرانوں کو شاید ایسے نوجوان بچوں کے بگڑتے ہوئے کردار کی فکر نہیں ہے ،
شاید وہ وطن عزیز کے نونہالوں کو غلط روش پر چلتا ہوا دیکھ کر خوش ہونا
چاہتے ہوں ۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان برائی کو دیکھ
کر ہاتھ سے روکے ۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ۔ اگر زبان
سے روکنے کی ہمت نہیں تو دل سے برا جانے ۔ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے
۔
میرے مسلمان بھائیوں ! غور کرو جو لوگ خود برائی کا ارتکاب کر رہے ہوں ،
ایمان کے حوالہ سے ان کا کیا مقام ہو گا اور وہ کہاں پر کھڑے ہوں گے ۔ آج
وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں امت مسلمہ پریشانیوں کا شکار ہے
کبھی غور کیا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آئیے آج آپ کو اس نبی کی زبان سے ان
اسباب کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ۔ جن کی محبت کے
دعویدار ہیں ۔ اس نبی رحمت کا فرمان عالی شان سنن ابن ماجہ کتاب الفتن میں
موجود ہے ۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ کہتے
ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب کسی قوم میں عریانی و
فحاشی عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون کی وبا پھیلتی ہے اور ایسی ایسی
بیماریاں قوم میں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں
۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے تو اس قوم پر اللہ رب العزت ظالم
حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ جب کوئی قوم زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہ کرے تو
اس قوم میں قحط سالی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر چرند پرند نہ ہوں تو اس قوم پر
پانی کی ایک بوند بھی نہ برسے ۔ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے
لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کے وسائل و ذخائر پر
قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جب کسی قوم کے حکمران حدود اللہ کی پامالی شروع کر دیں
تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے
رہتے ہیں ۔
یہ پانچ چیزیں جن کا تذکرہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک
سے کیا اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔ کیا آج بحیثیت قوم اجتماعی طور
پر ہم میں یہ ساری چیزیں نہیں پائی جاتیں ؟ آج ہم یہ نقصان نہیں اٹھا رہے ؟
اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو آئیے اپنی اصلاح کریں ۔ والدین اپنے
بچوں پر نگاہ رکھیں کہ کہیں وہ غلط روش پر تو نہیں چل رہے اور حکمران بھی
اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے مخرب اخلاق اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کر کے
قوم کے نونہالوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں اور قوم کے نوجوان
بچے اور بچیاں بھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ہم اپنی
حالت نہیں بدلیں گے تو ہمارا خالق و مالک بھی ہم سے منہ موڑ لے گا اور اسی
خالق کائنات کا فرمان عالیشان ہے ۔ جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے کہ یہودی پروٹوکولز میں
پروٹوکول نمبر 161 میں فحاشی کے فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ” ترقی پسند
اور روشن خیال کہلانے والے ممالک میں ہم نے لغو ، فحش اور قابل نفرت قسم کے
ادب کو پہلے ہی سے خوب فروغ دے رکھا ہے ۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے عرصہ بعد
تک ہم عوام کو تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعے مخرب اخلاق ادب کی
حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ۔ ہمارے دانشور جنہیں غیریہودی کی قیادت
سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی ، ایسی تقریر اور مضامین تیار کریں گے جن سے
ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تا کہ نئی نسل ہماری قبض کردہ راہوں پر گامزن
ہوسکے ۔
کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں گے یا نہیں ۔ یہ بات
قابل توجہ ہے کیا ہمارے حکمران فحاشی کے پھیلتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند
باندھنے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یہ سوال ہے قوم کے حکمرانوں کے لیے ، کیا
انہوں نے قیامت کے دن جواب دینے کی تیاری کر لی ہے ؟ کیا حکام بالا ان
لوگوں کے خلاف ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ ایسا لٹریچر پاکستان کے ہر شہر ، میں
بک سٹالوں پر سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ اسی طرح گندی سی ڈیز بھی ہر جگہ
دستیاب ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہیں ۔ |