امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک بہادر شخص جنگل میں جارہا تھا اُس نے ایک ریچھ
اور اژدہے کو لڑتے ہوئے دیکھا اُس نے دیکھا کہ اژدہا زبردست ہے تو اس نے
اسے مارکر ریچھ کو رہائی دلا دی ریچھ اس احسان کی وجہ سے اس کا دوست بن گیا
اور وہ دونوں ساتھ ہولیے ایک جگہ تھکن کی وجہ سے اس بہادر شخص کو سستانے کی
ضرورت محسوس ہوئی او روہ ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا اور ریچھ اس کے
قریب بیٹھ گیا۔ وہاں پر ایک دانا شخص آیا اس نے ریچھ اور اس بہادر شخص کو
ساتھ دیکھ کر ماجرا دریافت کیا تو اس بہادر شخص نے سارا قصہ سنایا اور
بتایا کہ ریچھ اس احسان کی وجہ سے اس کا دوست بن گیا ہے اس عقلمند نے کہا
کہ نادان کی دوستی ٹھیک نہیں ہوتی تو اسے جنگل میں چھوڑ اور میرے ساتھ چل ،میں
تم جیسا ہوں ،عقلمند ہوں اور تمہارے لیے بہتری کروں گا جب کہ اس ریچھ کی
دوستی سے تجھے خطرات ہوں گے اس بہادر شخص نے اس مشورے کو اس عقلمند شخص کے
حسد پر محمول کیا ،اس کے اصرار کو شک کی نظروں سے دیکھا کہ یہ مجھے کیو ں
ساتھ لے جانا چاہتا ہے الغرض اس نے دانا کو کہا کہ مجھے آرام کی ضرورت ہے
میری فکر نہ کرو مجھے سونے دو اس نے بہت سمجھایا مگر بدگمانی اور بددماغی
نے بہادر شخص کو درست سوچنے سے باز رکھا وہ دانا شخص چلا گیا اور یہ بہادر
شخص درخت کے نیچے سو گیا اور ریچھ اس کا محافظ بن گیا سوتے میں اس شخص کے
چہرے اور منہ پر مکھیاں بیٹھتی تھیں ریچھ ان کو اڑاتا رہا وہ پھر آبیٹھتیں
ریچھ ان کو اڑا اڑا کر تنگ آگیا اور قریب سے ایک چکی کے پاٹ جیسا بھاری
پتھر اٹھا کر لے آیا اب جو مکھیاں آکر اس شخص کے منہ بیھٹیں تو ریچھ نے
نشانہ لے وہ پتھر اس کے منہ پر مکھیوں کو دے مارا اس شخص کا سر پھٹ گیا اور
وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔۔۔
قارئین الیکشن 2011ء آزاد کشمیر میں سر پر آپہنچے ہیں اور دیکھنے میں آرہا
ہے کہ امام رومی ؒ کی اسی حکایت کی مانند کئی بہادر لوگ کئی ریچھوں کو اپنا
دوست بنا رہے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ریچھ وہ نادان دوست ہیں کہ جو
اپنی بیوقوفی اور نادانی کی وجہ سے کوئی نہ کوئی نقصان ہی پہنچاتے ہیں اس
وقت تمام سیاسی تنظیمیں سیاسی اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹ منٹ اور دیگر
حکمت عملیوں کے ذریعے اپنی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور
اس تمام عمل کے دوران کئی ریچھ نما نادان دوست ہماری بہادر سیاسی تنظیموں
کے ساتھ ہولئے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن اور مسلم
کانفرنس یاد رکھیں کہ اگر انہوں نے نادانوں کو اپنا دوست بنایا تو ان کا
انجام اسی بہادر شخص جیسا ہوگا جو امام رومی ؒ کی حکایت میں اپنی جان سے
ہاتھ دھو بیٹھا ۔۔۔
اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر تمام سیاسی تنظیموں سے مضبوط پوزیشن
رکھتی ہے لیکن یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ کئی نادان دوست اس وقت بیرسٹر
سلطان محمود چوہدری اور چوہدری عبدالمجید کے درمیان اختلافات کو فروغ دے
رہے ہیں اور الیکشن جیتنے سے قبل ہی پاکستان پیپلز پارٹی میں وزارت ِعظمیٰ
کے پانچ امیدوار سامنے آکر پس پردہ اور پیش پردہ ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچنے میں مصروف ہوگئے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی یاد رکھے کہ اگر انہوں نے
اس نادانی کو جاری رکھا تو انتخابات میں ان کا انجام مسلم کانفرنس جیسا ہو
گا جو پہلے ہی نادان دوستوں کی نادانیوں کا شکار ہو کر مغلیہ سلطنت کے زوال
کی تصویر پیش کر رہی ہے اور یہاں تک پیش گوئی کردی گئی ہے کہ الیکشن
2011ءمیں مسلم کانفرنس پانچ نشستوں سے زیادہ نہیں جیت سکتی ۔
اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان اور سابق
وزیر اعظم انقلاب پسند پارہ صفت لیڈر راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں روز
بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے آنے والے دنوں میں مسلم کانفرنس
کے کئی ارکان اسمبلی مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں یہاں مسلم
لیگ ن کو بھی انتہائی محتاط ہوکر چلنا پڑے گا کہ شمولیت اختیار کرنے والے
کئی دوست چلتے پھرتے ریچھ ہیں اور ان کی دوستی باعث ہلاکت ہوسکتی ہے اور
ایک آدھ ریچھ ایسا بھی ہے کہ اگر مسلم لیگ ن نے اسے اپنے ساتھ شامل کیا تو
سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حید رکی اپنی سیٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔۔
قارئین آزاد کشمیر کے الیکشن 2011ءماضی کے تمام انتخابات سے مختلف نوعیت کے
ہیں میرپو ر سے لے کر مظفرآباد تک 30لاکھ ووٹر ز تبدیلی اور انقلاب کی ایک
سوچ لے کر میدان میں آنے والے امیدواروں کا استقبال کر رہے ہیں اور ووٹ
مانگنے والے سب لوگوں سے ان کی کارکردگی اور دیانت داری کے متعلق سوالات
کیے جارہے ہیں حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام پہلی مرتبہ
برادری ازم ،علاقائیت اور دیگر عصبیتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرچکے ہیں
اور پارٹی ایجنڈاز اور سیاسی منشور کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور
تبدیلی کی یہی سوچ بڑے بڑے برج گرانے کا سبب بن سکتی ہے ۔میرپور حلقہ ایل
اے تین جو ہمیشہ سے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا گڑھ رہا
ہے وہاں تبدیلی کی یہ سوچ اور فکر سب سے زیادہ مضبوط نظر آرہی ہے اور
آزادکشمیر کا معاشی دل میرپور اس وقت جاگ چکا ہے اہلیان میرپور میں یہ سوچ
واضح طور دکھائی دے رہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے
لیے انگنت قربانیاں تو انہوں نے دی ہیں لیکن ان قربانیوں کے صلے میں انہیں
استحصال کے علاوہ کچھ نہیں ملا منگلا ڈیم کی تعمیر اور اس کے بعد اپریزنگ
کے دوران لاکھوں انسان ہجرت کے عمل سے گزرے اور پھر آج کل دوبارہ گزر رہے
ہیں لیکن نہ تو 1964ءمیں سابق صدر آزادکشمیر کے ایچ خورشید بانی لبریشن لیگ
کی طرف سے واپڈا کے ساتھ کئے جانے والے ”معاہدہ منگلا ڈیم “کی کسی ایک بھی
شق پر عمل کیا گیا اور نہ ہی اپریزنگ معاہدہ کو پورا کیا جارہا ہے منگلا
ڈیم سے اربوں کھربوں روپے تو وفاقی حکومت اور واپڈا نے کمالئے لیکن ہجرت
کرنے والے لوگوں کو محروم رکھا گیا پہلی دفعہ اہلیان میرپور جاگے ہیں اور
وہ سیاسی قیادت اور ووٹ مانگنے والی سیاسی جماعتوں سے سوال کر رہے ہیں کہ
”معاہدہ منگلا ڈیم “اور ”معاہدہ اپریزنگ “پر عمل کون کروائے گا ۔۔۔؟یہ سوال
وزارت امور کشمیر ،واپڈا ،وفاقی حکومت ،محکمہ امور منگلا ڈیم کے ساتھ تمام
سیاسی جماعتوں کیلئے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے جسے نہ تووہ اگل سکتے ہیں اور
نہ ہی نگل سکتے ہیں ۔۔
قارئین بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ جو کچھ امریکہ
کررہا ہے اس کے اثرات پاکستان سے کہیں زیادہ کشمیر پر مرتب ہورہے ہیں
امریکی اشاروں پر ناچتے ہوئے طبلے والی سرکار نے جس طریقے سے کشمیر کی
تحریک آزادی کو رول بیک کیا اس سے آزادی کشمیر کی تحریک کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا ،جب جمہوری حکومت آئی تو تما م کشمیر ی تنظمیوں کو امید کی کرن
دکھائی دی تھی کہ پاکستان میں وہ جماعت برسراقتدار آگئی ہے جو ذوالفقارعلی
بھٹو شہید نے کشمیر کے نام پر بنائی تھی اور اعلان کیا تھا کہ آزادی کشمیر
کیلئے ہم ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں لیکن بصدافسوس امیدیں
اور خواہشات دھری کی دھری رہ گئیں اور کشمیریوں کا ایک نیا امتحان شروع
ہوگیا زرداری حکومت اپنی ذمہ داریاں داخلی اور خارجی سطح پر نبھانے میں
ناکام دکھائی دے رہی ہے اور آزادکشمیر کے انتخابات پر یہ ناکامی بھی اپنے
اثرات لازماً مرتب کرے گی ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی ،ریمنڈڈیوس سے لے کر ڈرون
حملوں تک جس طرح پاکستانی حکومت شکست پر شکست کھا رہی ہے اس سے 18کروڑ
پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ 40لاکھ کشمیری بھی دل گرفتہ اور احساس شکست سے
دوچار ہیں ۔
قارئین یہ بات رکھی جائے کہ کئی نامور لوگ آئے اور چلے گئے صرف انہی کا نام
زندہ رہا کہ جو مخلوق خدا کیلئے کچھ کر کے چلے گئے دنیا آج بھی انہیں یاد
کرتی ہے ،ان کے مزاروں پر ان کی یادوں کے چراغ جلاتی ہے اور ان کے لیے کچھ
پڑھتے پڑھاتے ہوئے آنسو بہاتی ہے جبکہ فرعون سے لے شداد تک اور مسولینی سے
لے کر شاہ ایران تک عبرت کی کئی تصویریں اب بھی پیغام دیتی ہیں ”کہ اے
آنکھوں والو تم غور کیوں نہیں کرتے “آزادکشمیر کے تما م بہادر وں سے ہم
امید رکھتے ہیں کہ وہ دانا بنتے ہوئے ریچھوں سے بچیں گے اور عوام کی خدمت
کیلئے کچھ کرگزریں گے بقول غالب ۔۔
بازیچہ اطفال ہے دُنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دوابھی ساغر ومینا مرے آگے
قارئین انقلاب کی آواز سرزمین عرب سے سفر کرتی ہوئی پاکستان اور آزادکشمیر
تک پہنچ چکی ہے اور اس کا پہلا امتحان آزادکشمیر کی سرزمین پر جمہوری انداز
میں ہونے جارہا ہے یہاں دعا کرنی چاہیے کہ انقلاب کا جمہوری رنگ ہمیں راس
آجائے کیونکہ انقلاب اصل رنگ سرخ ہوتا ہے اور خون کی وہ سرخی لاکھوں
انسانوں کی قربانیوں سے مذین ہوتی ہے اگر انقلاب ووٹ کے ذریعے آجائے تو اس
سے زیادہ خوشی کی بات کوئی نہیں ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک بادشاہ نے جنگ میں فتح کے بعد دلیری کے کارنامے دکھانے والے فوجیوں میں
انعامات تقیسم کرنا شروع کیے پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے فوجی سے بادشاہ نے
پوچھا کہ تمہاری زندگی کا دلیری کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے ۔۔؟
فوجی نے بادشاہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔
”عالی جاہ میری سب سے بڑی بہادری یہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ بیس
سال گزارے ہیں “
قارئین آزاد کشمیر کے عوام کی بھی سب سے بڑی بہادری یہ ہے کہ ہم نے مفاد
پرست لٹیرے نما لیڈروں کے ساتھ کئی دہائیاں گزار دی ہیں لیکن اب اس نادانی
نما بہادری سے نکلنے اور جاگنے کا وقت ہے نوجوان جاگیں اور اپنی اصل
پہچانتے ہوئے انقلاب کی تیاری کریں ۔۔ |