کسی زمانے میں فلموں کے اندر ایک ہیرو اور ایک سائیڈ ہیرو
ہوا کرتا تھا ۔ مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے ان دونوں ہیرو کو زیرو کردیا
اور ان کے ہدایتکار کا دیوالہ پٹوا دیا۔ اس ہدایتکار کا نام امیت شاہ اور
فلمساز ہیں ’واہ مودی واہ‘۔’ کمل کا کمال ‘ نامی اس فلاپ فلم کا مین ہیرو
وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس ہیں لیکن سائیڈ ہیرو کون ہے ؟ یہ کون بنے گا
کروڈ پتی کا آخری سوال ہے جس کے بعد کھیل کی بازی لپیٹ دی جاتی ہے۔ اس
سوال کے جواب میں سب سے پہلے ادھو ٹھاکرے کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن ایک
ایسے وقت میں جبکہ کانگریس اور این سی پی نے اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد
میں اضافہ کیا ہوا ۷ نشستوں کا نقصان اٹھانے والی شیوسینا سائیڈ ہیرو کیسے
ہوسکتی ہے ۔ اس کو زیادہ سے کامیڈین کا رول دیا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی سچ
ہے کہ بی جے پی کے سترہ کے خسارے نے سینا کے نقصان کو بہت کم کردیا ہے۔ لوگ
تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دیویندر فردنویس کی صحبت کے باوجود ۷ کے نقصان
پرادھو سستے چھوٹے۔
ادھوٹھاکرے نے بہت صحیح موقع پر ادیتیہ کو میدان میں اتارا۔ اپنے بیٹے کو
نائب وزیراعلیٰ بنانے کا اس سے بہتر موقع شاید ہی ہاتھ آئے ۔ادیتیہ کا
ہتھوڑا ایک ایسے وقت میں مارا گیا ہے فردنویس کا لوہا گرم ہے۔ یہ قدرت کی
ستم ظریفی ہے کہ کل تک جس شیوسینا کو بی جے پی والے دھتکار رہے تھے آج
پچکار رہے ہیں ۔ نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے شیوسینا نے
وزارت اعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کردیا ہے تاکہ توپ نہ سہی تو بندوق ہی مل
جائے ۔ لیکن مشیت کی ایک اور قہر دیکھیں کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ٹھاکرے
پریوار کا پہلا فرد ماتو شری سے نائب وزیراعلیٰ کی کوٹھی میں جانے کے لیے
پرتول رہا ہےشیوسینا کے میئر وشوناتھ مہاڈیشور کو بابا صدیقی کے بیٹے ذیشان
صدیقی نے شکست دے دی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ باندرہ (مشرق ) کے جس حلقہ سے
وشوناتھ ہارے اسی میں ٹھاکرے پریوار کا گھر ماتوشری واقع ہے۔ شیوسینا کی
سابق رکن اسمبلی ترپتی ساونت نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ کر
ذیشان کی ناو پار لگا دی۔ اس طرح ترپتی اس موقع پر ویمپ کا رول نبھایا۔
سائیڈ ہیروپرکاش امبیڈکر اس مشکل کی گھڑی میں دیویندر فردنویس کے سب سے بڑے
حامی بن کر سامنے آئے ۔ ان دونوں رہنماوں کے درمیان منافقت اور رعونت
مشترک تھی۔ فردنویس اپنی پارٹی کے حریفوں کو زخم لگاتے اور پھر اس پر مرہم
ڈالتے ۔ پرکاش امبیڈکر کانگریس کے ساتھ اشتراک کی خواہش ظاہر کرتے اور نا
قابلِ تسلیم شرائط رکھتے ۔ مثلاً کبھی تو کہتے کہ کانگریس اگر این سی پی کا
ساتھ نہ چھوڑے تو مفاہمت ممکن نہیں ہے۔ یعنی ایک طرف غیر بی جے پی اتحاد
قائم کرنے کا دعویٰ اور دوسری جانب بی جے پی کے دو حریفوں کے درمیان پھوٹ
ڈالنے کی شرط !چہ معنی دارد؟ یہ بی جے پی کا خواب تھا کہ دونوں کانگریس ایک
ساتھ انتخاب نہ لڑیں۔ اس صورتحال میں بی جے پی کے لیے شیوسینا سے پیچھا
چھڑا نا سہل ہوجاتا۔یہ بات بی جے پی کھلے عام نہیں کہہ سکتی تھی لیکن پرکاش
امبیڈکر ڈنکے کی چوٹ پر یہ مطالبہ کرتے تھے ۔ وہ پارٹی جس کو صرف ۴ فیصد
ووٹ ملے اور وہ اپنا کھاتہ تک نہیں کھول سکی وہ کانگریس کو یکساں نشست دینے
کی پیشکش کررہی تھی۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کو حزب اختلاف کی کرسی پر دیکھنے
والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ صرف ۹ مقامات پر ہی دوسرے نمبر پر
آسکی ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پرکاش امبیڈکر کو کسی کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہی نہیں
تھا۔ انہوں نے جہاں بیس حلقہ ہائے انتخاب میں بی جے پی کو کامیاب ہونے میں
بلاواسطہ مدد کی وہیں پانچ مقامات پر شیوسینا کا فائدہ بھی کیا ۔ یہ معاملہ
اگر الٹ جاتا یعنی بیس پر سینا اور پانچ پر بی جے پی کا بھلا ہوتا ادیتیہ
ٹھاکرےبڑے آرام سے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ بن جاتے ۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ
ونچت کانگریس این سی پی کے ساتھ آجاتی اور یہ پچیس نشستیں ان کو مل جاتیں
تو دونوں کا دونوں فریقوں کا فرق بہت کم ہوجاتا اور پرکاش امبیڈکر مہاراشٹر
کے وزیراعلیٰ نہ سہی تو وزیر داخلہ بن جاتے ۔ آج جس طرح ادیتیہ ٹھاکرے کو
سمجھانے منانے پر بی جے پی مجبور ہے اسی طرح کانگریس اور این سی پی والے
بالا صاحب کے ہاتھ پیر دبا رہے ہوتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پرکاش امبیڈکر نے
اقتدار میں حصے داری کا اہم موقع گنوا دیا ۔ انہیں نے تو صرف بھیماکورے
گاوں میں ہونے والی سرکاری زیادتی کے خلاف دلتوں کے اندر پیدا ہونے والی
ناراضگی کو بے اثر کر نے کا کام بہ حسن و خوبی کیا ۔ ان کی اس حالت پر
اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
پرکاش امبیڈکر کا سب سے احمقانہ فیصلہ مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ اتحاد
کا خاتمہ تھا ۔ قومی انتخاب میں پرکاش امبیڈکر خود دو حلقوں سے انتخاب لڑا
۔ وہ ایک میں ہار گئے اور دوسرے مقام پر توتیسرے نمبر پر آئے جبکہ مجلس نے
اورنگ آباد میں اپنی کامیابی درج کرائی اس کے باوجود انہوں مجلس کو ۸
نشستوں کی پیشکش کی جو مضحکہ خیز تھی۔ ویسے بھی مہاراشٹر میں دلتوں کی
آبادی مسلمانوں سے کم ہے اس کے باوجود مجلس کو ۸ سیٹیں دینا اور اپنی
جماعت کے تحت ۲۵ مسلمانوں کو لڑانا ایک ایسی منطق تھی جس کو کوئی نہیں سمجھ
سکتا۔ پرکاش امبیڈکر نے اپنا زیادہ تر وقت دلتوں اور مسلمانوں میں لگانے کے
بجائے دیگر پسماندہ طبقات پر صرف کیا تاکہ بی جے پی سے ناراض ہوکر دور ہونے
والے اس سماج کو کانگریس اور این سی پی کے قریب جانے سے روکا جاسکے ۔ وہ
دلتوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں اور مسلمانوں سے مایوس ہوچکے تھے لیکن
انتخابی نتائج گواہ ہیں کہ بی جے پی کا چراغ جلانے کے چکر میں انہوں نے
اپنا گھر جلا لیا اور اپنے دوست کے ساتھ ہیرو سے زیرو بن گئے۔
اس انتخاب سے قبل یہ خبر اڑائی گئی تھی کہ اس بار اسمبلی کے اندر مسلمانوں
کی موجودگی کو صفر کردینے کا منصوبہ بنالیا گیا ہے لیکن ہوا یہ کہ مسلم
ارکان کی تعداد میں ایک کا اضافہ ہوگیا ۔ اس معاملے میں ایک خاص بات یہ ہے
کہ بارہ مسلم امیدوار دوسرے نمبر پر آئے جن میں سے چار مجلس اتحاد
المسلمین ، ایک ونچت اگاڑھی ایک آزاد اور باقی کانگریس کے ہیں ۔ یہاں پر
اگر کوئی مفاہمت ہوجاتی یعنی ہارنے والے مسلم امیدوار کے خلاف کانگریس یا
دیگر جماعتیں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتیں یا کوئی ڈمی امیدوار کھڑا کردیا
جاتا تو مسلمانوں کی نمائندگی بڑھ سکتی تھی۔ ایم آئی ایم کے ارکان اسمبلی
کی تعداد میں ویسے تو کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن جس اضافہ کے خواب سجائے
جارہے تھے وہ چکنا چور ہوگئے ۔ ہندوستان بھر میں علاقائی جماعتیں اپنے صوبے
میں سب سے زیادہ اور دیگر ریاستوں میں چند علامتی مقامات پر انتخاب لڑتی
ہیں لیکن مجلس کا معاملہ الٹا ہے۔ وہ تلنگانہ کے اندر ۷ مقامات پر مگر
مہاراشٹر میں ۴۴ مقامات پر قسمت آزمائی کرتی ہے ۔ اس منطق کو سمجھنا بھی
تقریباً ناممکن ہے۔
مہاراشٹر میں ۹ مقامات پر شیوسینا اور بی جے پی کی کامیابی میں مجلس کے ووٹ
کا حصہ نظر آتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑی مثال چاندیولی کے عارف نسیم خان کی
ہے جنہیں چار سو نو ووٹ سے شکست ہوئی جبکہ مجلس کو گیارہ سو سے زیادہ ووٹ
ملے ۔ ناگپور میں مجلس نے آٹھ ہزار پانچ سو ووٹ لے لیے جبکہ کانگریس کے
امیدوار کو صرف چار ہزار ووٹ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ناندیڑ شمال میں
مجلس نے اکتالیس ہزار ووٹ حاصل کیے جبکہ کانگریس کا امیدوار بارہ ہزار ووٹ
سے ہارا۔ پونہ میں اور کرلا میں بھی یہی ہوا۔ مجلس اگر چند منتخبہ مقامات
پر اپنی توانائی صرف کرتی تو ریاست کے اندر بی جے پی کی حالت اور بھی
دگرگوں ہوتی لیکن جب پارٹی کے فائدے کو ملی مفاد پر فوقیت حاصل ہوجائے تو
یہ آسان سی بات بھی مشکل ہوجاتی ہے ۔ مجلس کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس
کوان دونوں مقامات پر شکست کا منہ کیوں دیکھنا پڑا جہاں وہ پچھلی مرتبہ
کامیاب ہوئی تھی؟ پارلیمانی انتخاب میں امتیاز جلیل کی شاندار کامیابی پر
اورنگ آباد کی ساری نشستوں میں مجلس کی ناکامی نے گہن لگا دیا ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخاب میں سب سے زیادہ وسعت قلبی کا مظاہرہ جناب ابو عاصم
اعظمی نے کیا ۔ انہوں نے بائیکلہ سے رئیس شیخ کو میدان میں نہیں اتارا جبکہ
کونسلر کے طورپر بہترین کارکردگی کے سبب ان کی کامیابی کے امکانات روشن
تھے۔ اعظمی کی دلیل یہ تھی وہ مسلم ووٹ کی تقسیم سے شیوسینا کو فائدہ
پہنچانا نہیں چاہتے۔ یہ سیٹ انہوں نے وارث پٹھان کے لیے چھوڑ دی جو ہار گئے
۔ رئیس شیخ نے اگر بائیکلہ سے انتخاب لڑا ہوتا تو شیوسینا کی کامیابی کا
سہرا سماجوادی پارٹی کے سر باندھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ابو عاصم اعظمی
نے جس ظرف کا مظاہرہ کیا مجلس ویسا نہیں کرسکی ۔ ممبا دیوی میں کانگریس کے
رکن اسمبلی امین پٹیل کے سامنے اس نے بشیر موسیٰ پٹیل کو میدان میں اتار کر
ایک خطرناک کھیل کھیلا جو بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا لیکن ملت نے اپنی
بالغ نظری سے اس کو ناکام کردیا ۔ وہاں پر ونچت نے شمشیر خان پٹھان کو
میدان میں اتارا تھا لیکن وہ تلوار بھی کند کردی گئی۔ اس کے برعکس سماجوادی
پارٹی کے رئیس شیخ کو بھیونڈی مشرق سے انتخاب لڑایا گیا ۔ ایک نئے مقام پر
بھی امت نے اس قربانی کی قدر دانی کرتے ہوے انہیں کامیاب کیا۔ ابو عاصم
اعظمی اور رئیس شیخ نے یہ ثابت کردیا کہ انتخابی سیاست میں اخلاص ہو تو اس
کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں بقول اقبال ؎
ہفت کِشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تُو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
|