پانچ بہن بھائیوں میں میرا نمبر آخری تھا ۔بلکہ مجھ سے
بڑے بھائی اور مجھ میں تو بارہ سال کا فرق تھا ۔گھر میں سب سے چھوٹی ہونے
کی وجہ سے لاڈلی تھی ۔ابا امی کے بیچ میں سونا معمول تھا ۔امی سخت تھیں
کبھی غلطی ہوئی تو پائپ سے مار پڑتی ۔مگر ساتھ ہی بہت پیار کرنے والی ماں
تھیں ۔ہر بات کا خیال رکھتیں بچوں کے لیۓ فکر مند رہنا انکا معمول تھا ۔ایک
دن اسکول وین خراب ہو گیئ اور مجھے گھر اتے کافی دیر ہو گئی اس زمانے میں
موبائل نہیں ہوتا تھا کہ آج کی طرح وین والے کو فون کر کے پوچھ لیتے خیر جب
کافی دیر سے گھر پہنچایا وین نے تو پتا چلا کہ امی رو رہی ہیں زار و قطار
کہ بچی گھر نہیں آئی اور برابر والی رخسانہ آنٹی انھیں تسلی دے رہی ہیں
جیسے ہی مجھے دیکھا جان میں جان آئی امی کی ۔
85 میں ابّا کے انتقال کے دو سال بعد اسلام آباد کو خیرآباد کہ کر ہم کراچی
شفٹ ہو گیے تھے ۔دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی تھی ایک بھائی باہر چلے گیے
تھے دوسرے بھی تقریباً شھر سے باہر ہی رهتے تھے جاب کی وجہہ سے ۔گھر میں
صرف میں اور امی رهتے ساتھ ہماری نانی رہیں کچھ سال جب تک وہ زندہ رہیں ۔اس
دوران میں میٹرک کر چکی تھی کالج شرو ع ہو چکا تھے بڑ ے بھائی کی جاب اب
کراچی میں ہی ہو گیی تھی انکے لیۓ لڑکی تلاش کی اور شادی کر دی انکی ۔اب ہم
چار لوگ تھے گھر میں۔ بھابی بہت اچھی تھیں مگر امی کو اپنا تابدار بیٹابہو
کے ساتھ بانٹنا اچھا نہیں لگا اور روز کسی نہ کسی بات پے گھر کا ماحول خراب
ہوتا خیر بھائی بہت سعادت مند تھے اسی لیۓ بہو بھی ہمیشہ دبی رہیں اور
زندگی گزرتی گیی ۔بھائی کی شادی کے دو سال بعد میری شادی بھی ہو گیی تھی ۔
امی اب بوڑھی ہو چکی تھیں ہڈیوں کے درد کا مرض بھی ہو گیا تھا بھائی کے تین
بچے ہوئے انکی شادی انیس سال رہی پھر ایک دن اچانک ہارٹ فیل سے بھابی کی
ڈیتھ ہو گیی ۔بس پھر تو سارے گھر کا نظام ہی الٹ گیا بچے بھی تینوں کم عمر
ہی تھے ابھی۔ اب بھائی بچے اور امی رہ گئیں ۔ہم تینوں بہنیں شادی شدہ تھیں
جتنا جا سکتے تھے جاتے مگر ظاہر ہے کوئی کتنے دن رہ سکتا ہے اپنا گھر چھوڑ
کے ۔دن گزرتے رہے امی مزید کمزور ہوتی گئیں۔ بن ماں کے بچوں کا غم گھر کا
نظام الٹ جانے کا غم ان سب نے توڑ دیا تھا اندر سے انکو اور سب سے زیادہ
تنہائی نے ۔جب ہم جاتے رونق ہو جاتی انکے گھر میں کھانا پکتا ورنہ تو جسے
تسے گزارہ ہوتا کبھی باہر سے لا کے تو کبھی ماسی پکا دیتی ۔اب امی وہیل چیر
پے آ چکی تھیں بڑھاپا اور ساتھ اورتھوریٹاس کا مرض ۔خود سے باتھ روم بھی
نہیں جا سکتی تھیں ۔فل ٹائم ماسی رکھی تھی ہم نے جو انکے سارے کام کرتی تھی
۔مگر جب وہ چھٹی چلی جاتی تب مشکل ہو جاتی تھی ہم میں سے کسی کو جا کے رہنا
پڑتا یا امی کو کسی بیٹی کے گھر رہنے جانا پڑتا جب تک کے ماسی واپس نہ آ
جاتی ۔اسی طرح بھابی کے بعد چھ سال گزرے۔
دو ہزار انیس امی کا آخری سال تھا اس دنیا میں ۔ماسی چھٹی گئی ہوئی تھی دس
دن کے لیۓ اپنے گاؤں امی کو پہلے بڑ ی بہن کے گھر رہنا پڑا کچھ دن مگر باجی
خود بہت کمزور تھیں اور بیمار بھی رہتی تھیں امی کو واشروم اکیلے نہیں لے
جا سکتی تھیں اس لیۓ جب بھی ماسی جاتی زیادہ مجھے رہنا پڑتا امی کے ساتھ یا
پھر انکو اپنے گھر لانا ہوتا ۔اس دفع دس دن بھی گزر گۓ ماسی نہیں آئی ۔جب
امی آتیں رہنے تو میں انکے ساتھ رہتی ۔میاں اچھے تھے کچھ نہیں کہتے بس ایک
مسئلہ تھا کہ میری دونوں بیٹیاں نانی کی خاطر ڈرائنگ روم میں صوفے پےسوتیں
جبتک امی میرے پاس رہتیں ۔سب میرا ساتھ دیتے اس معاملے میں ۔مگر جب دس دن
سے زیادہ ہوگیے اور ماسی نہیں آئی تو میرے شوہر کو اپنی بیٹیوں کے صوفے پے
بے آرام سونا تکلیف دینے لگا ۔جو میں نے محسوس کر لیا اس دن میں نے رو کر
اللّه تعالیٰ سے دعا مانگی کہ میرے اللّه میرے گھر میں میری ماں کے لیۓ اک
کمرہ دے دے ۔تاکہ وہ میرے پاس رہ سکیں اور کوئی ڈسٹرب نہ ہو انکی وجہ سے
۔وہ قبولیت کی گھڑی تھی کہ کچھ ہی دن میں میرے بلکل برابر والا فلیٹ بک رہا
تھا اللّه کے حکم سے کچھ ہی دن میں وہ فلیٹ ہم نے لے لیا۔امی کو جو کمرہ
ملا اسکی دیوار میرے بچوں کے کمرے سے ملی ہوئی تھی یعنی اللّه نے میری
دعاقبول کی اور میرے گھر میں ہی جیسے کمرہ نکال دیا ۔
بھائی بچے اور امی شفٹ ہو چکے تھے میرے برابر سب کو سکون ہو گیا تھا میں
گھر کو اور امی کو آرام سے دیکھ رہی تھی ۔کھانا بھی گھر میں پکنے لگا تھا
امی تنہائی سے نکل کر رونق میں آ گیں تھیں ہم سب کے بیچ۔ مگر وہ شاید اپنے
بچوں کو یہاں میرے پاس چھوڑنے آئیں تھیں کونکہ یہاں انے کے ٹھیک دو مہینے
بعد اچانک وہ اس دنیا سے رخصت ہو گین ۔
وہ کمرہ جو انکے لیۓ مانگا تھا اللّه سے وہ اب خالی پڑا ہے ۔
|