دیس کی مٹی اور اس کی مہک کا طلسم کبھی فنا نہیں ہوتا

ایک مرتبہ ہمارا کسی کام سے نواب شاہ میڈیکل کالج ہاسپٹل کے پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں جانا ہؤا صبح سویرے کا وقت تھا او پی ڈی میں تین ینگ ڈاکٹر بیٹھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ ہم نے جا کر ان سے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا کہنے لگے بڑا ڈاکٹر ابھی آیا نہیں ہے آپ ابھی بیٹھو ۔ ہم بیٹھ گئے اور کچھ دیر بعد جا کر ان سے پوچھا بھئی بڑا ڈاکٹر کب آئے گا؟ کہنے لگے بس آنے ہی والا ہے آپ خاطری رکھو زیادہ دیری نہیں ہے اس کے آنے میں ۔ کچھ دیر بعد سفید کاٹن کے ملگجے سے شکن آلود شلوار قمیص میں ملبوس ایک منحنی و مختصر سا شخص بکھرے بال اور باسی سا منہ لئے ہوئے آیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور گپ شپ میں مصروف ہو گیا ہمیں تھوڑا غصہ آیا اور ہم نے پھر ان کے پاس جا کر پوچھا بھئی وہ آپ کا بڑا ڈاکٹر کب آئے گا؟ کہنے لگے آ تو گیا ۔ ہم نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پوچھا کہاں ہے وہ؟ انہوں نے اسی مجہول سے شخص کی طرف اشارہ کیا اور بولے یہی ہے بڑا ڈاکٹر ۔

اتنا تو اس ڈاکٹر کا اپنا وزن نہیں تھا جتنا اس کی ڈگریوں کا تھا جو کاریڈور میں آویزاں اس کی نیم پلیٹ پر درج تھیں ۔ یو ایس اے اور یو کے سے کوئی آدھا درجن سے بھی زائد کورس اس نے کر رکھے تھے اپنے شعبے کے متخصص کے طور پر ۔ مگر اس کی سادگی اور بےنیازی کمال تھی کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ اس نے اپنی تربیتی اور عملی زندگی کا اچھا خاصا حصہ یورپ اور امریکہ جیسے ملک میں گذارا ہو گا ۔ یقیناً کبھی وہاں کوئی بہت اچھی ملازمت بھی ہو گی بہت اچھا سا گھر بہترین گاڑی ۔ یہاں تو اس کی تنخواہ اور اگر کوئی پرائیویٹ کلینک بھی چلاتا ہو تو دونوں جگہوں کی آمدنی کو ملا کر بھی اس پردیس کی کمائی کے چوتھائی حصے کے برابر بھی نہیں ہو گی ۔ پھر آخر کیا چیز تھی جو اسے مغربی دنیا کے طلسماتوں سے نکال کر یہاں اندرون سندھ کے خراباتوں میں لے آئی ہے؟ وہ معمر اور کچھ مضمحل سا ہونے کے باوجود کتنا مطمئین و مسرور نظرآتا ہے ۔

ایک اس ڈاکٹر پر ہی کیا موقوف ہے بہت سے اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اور ہنرمند ہوتے ہیں جو دیار مغرب کی سرزمینوں پر ایک محفوظ اور پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کے بالآخر اپنی اصل کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ سبھی کوئی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار سرپھرے نہیں ہوتے یہ اصل میں وطن کی مٹی اور اس کی مہک کے اسیر ہوتے ہیں یہ وہ طلسم ہوتا ہے جو اکثر ہی جیون کے جوبن پر کچھ سرد پڑ جاتا ہے مگر فنا کبھی نہیں ہوتا اور زندگی کی شام میں خود کو منوا لیتا ہے (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.