(ماریہ سلیم۔)
ایسے الفاظ عموماً محبوب کی آمد پر استعمال کیئے جاتے ہیں۔ لیکن آج یہ
الفاظ ایک ایسے پراجیکٹ کے لئیے استعمال کیا جارہے ہیں جو کہ مسلم لیگ ن کے
دور میں شروع ہوا اور آخرکار اب اختتامی مراحل کو پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس سے
قبل کے میں اس پراجیکٹ کی بات کروں میں یہاں ایک بات واضح کردوں کے ہر دور
میں حکومت کے تعمیراتی منصوبے کو روکنے کا کام اپوزیشن کا اولین فرض رہا ہے۔
سیاسی ریس کے دیوانے لوگ ملک و قوم کی بقاء کو ایک طرف رکھ کر ذاتی مفاد
اور ہار جیت کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج ہمارا ملک ترقی یافتہ
ہونے کی جگہ ترقی پزیر ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا نشانہ کسی خاص پارٹی پر
نہیں بلکہ موجودہ اور ماضی کی تمام پارٹیوں پر ہے۔ اگر کوئی حکومت ملک کے
فائدے کے لئیے کوئی منصوبہ تیار کرتی ہے تو اسے کرپشن کا نام دے دیا جاتا
ہے اور اپنی باری میں اس منصوبے پر اپنے نام کی تختیاں سجائے بیٹھے ہوتے
ہیں۔
آج کا کالم بھی ایک ایسے ہی منصوبے پہ ہے جو کہ سیاسی مفاد کی نظر ہو کر اب
اختتام پزیر ہونے لگا ہے۔ ایک دوسرے کی تو تو میں میں سے عوام ایک دھندلہ
پہلو بن جاتی ہے۔ سیاست کے میرے استادِ محترم نے بجا فرمایا تھا کہ ووٹ کے
لئیے عوام کو نہیں بلکہ آپسی سیاسی ریس کو سامنے رکھ کر چلا جاتا ہے۔ افسوس
تو یہ ہے کہ قوم اس گمان کا شکار ہے کہ سب درست ہوجائے گا لیکن جب تک یہ
ریس ختم نہیں ہوگی تب تک پراجیکٹس میں روکاوٹ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ایسی ہی ایک کہانی اورنج لائن منصوبے کی ہے۔مئی 2014 کو پاکستان اور چین کے
درمیان ایک ایم او یو کے ذریعے اس پراجیکٹ کی کہانی کا آغاز ہوا۔ پراجیکٹ
کیلئیے چین سے 1.55 بلین ڈالر کا لون بھی لیا گیا۔اکتوبر 2015 کو حبیب
کنسٹرکشن سروس کو فیز ون (اول) کی تعمیر کے لئیے 150 بلین ڈالر دئیے گئے
اور اکتوبر 2016 کو ذی کے بی انجنئرز اینڈ کنسٹرکٹر کو فیز ٹو (دوم) سول
ورک کے لئیے علی ٹاوٗن اور چبرجی کے لئیے 39.11 بلین دیے گئے۔
19 اگست 2016 کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے روکاوٹ کا عمل سامنے آیا جس کے
مطابق 11 تاریخی مقامات سے 200 فٹ تک پابندی عائد کی جس پر آپوزیشن کی خوشی
یادگار تھی۔ بعداز اس پابندی کو ہٹا دیا گیا۔ الیکشن کے بعد پنجاب حکومت نے
اسے وائٹ ایلیفینٹ یعنی فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز کا نام
دیا۔مسلسل رکاوٹ برداشت کرتے کرتے آخرکار 23 اکتوبر2019 کو خوش خبری ملی کہ
اورنج لائن چلنے کے لئیے تیار ہو گئی ہے۔ مزید یہ کہ یہ ٹرین ضلہ گجراں سے
انارکلی تک چلے گی۔ تفصیلات کے مطابق 13 اسٹیشنز پر کام مکمل کر لیا گیا ہے
اور باقیہ 11 اسٹیشنز نومبر کی پہلی تاریخ تک مکمل کردئیے جائیں گے۔
اس سلسلے میں وزیر اعلی ٰ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ٹرین کا کرایہ عام
آدمی کی پہنچ میں ہوگا اور جنوری میں ٹرین کا باقائدہ آغاز کردیا جائے گا۔
اس خبر سے لاہوریوں کی خوشی قابلِ دید تھی۔ عوام ایک دوسرے کو مبارکباد دے
رہی تھی یوں لگا کہ جیسے حکومت نے ایک وعدہ پورا کر دیا ہو۔لیکن کچھ لوگ اس
فقر میں ہیں کہ کہیں یہ منصوبہ پشاور میٹرو کی طرح برسات میں اپنا اصلی روپ
نہ دکھا دے۔لیکن یہاں تنقید کرنا مناسب نہیں کیوں کہ جہاں پہ جو پارٹی عوام
کے لئیے کام کرے اس کی تعریف کرنا ہم بحیثیت عوام ایک ضروری عمل ہے۔
گلا تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
لیکن سوال کرنا ہماری فطرت ہے لہذا اس فطرت کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی
سوالات اٹھاتی ہوں کہ کرپشن کے الزامات سے کیا ثابت ہوا؟ منصوبہ جو کہ کرپٹ
تھا اس پر حکومت نے کام جاری کیوں کیا؟ تاخیر کی کیا وجہ تھی؟ کیا تاخیر
سیاسی مخالفت کی بنا پر تھا؟ خسارے کا ذمہ دار کون ٹھرے گا؟ منصوبے کو
روکنے کی اصل وجہ کیا تھی؟ وائٹ ایلیفینٹ کا نام دیا گیا منصوبہ اب اہم
منصوبہ کیوں کہلایا گیا؟ پہلے تنقید پھر تعریف کیوں کی گئی؟ نواز شریف کے
دور میں جو منصوبہ مکمل ہوناتھا اسے اتنا وقت کیوں لگا؟ کیا اس منصوبے میں
بھی سیاسی ریس کا عنصر شامل ہے؟ تاریخ پر تاریخ کا یہ سلسلہ آخر کیوں چل
رہا ہے؟ کیا یہ منصوبہ ابھی بھی دئیے گئے وقت پر مکمل ہوگا؟ کیا عوام جنوری
میں اس ٹرین میں حقیقی طور پر بیٹھے گی؟ 2014 میں شروع ہوا منصوبہ رکتے
رکتے 2019 تک کیوں آیا؟
میری گزارش ہے موجودہ اور آئندہ آنے والی آپوزیشن جمعتوں سے کہ خدارا ملکی
مفاد کو مدنظر رکھ کر چلیں اور قوم کی خوشحالی کے لئیے منصوبے کو پورا کرنے
کا موقع دیا جائے۔ جیت ہار کھیل کا حصہ ہے اور ملک کو چلانا کھیل نہیں بلکہ
ایک اہم فرض ہے۔ اگر کوئی جما عت ملک کی بقاء کے لئیے منصوبہ شروع کرے تو
اسے تنقید کی جگہ تعریف کرنی چاہئیے۔ امید ہے کہ اس کالم کو پڑھنے کے بعد
آپوزیشن اور حکومتی رویوں میں تبدیلی دیکھائی دے گی۔ عوام کی بھی یہی خواہش
ہے کہ آپوزیشن اور حکومت مل کر تمام منصوبوں کو مکمل کرے تاکہ ملک میں
بہتری اور معاشی استحکام آسکے۔
|