میرے والد صاحب کی سنائی ہوئی حقیقی کہانی۔‎

میں آج اپنے والد صاحب کی بتائی ہوئی ایک حقیقی کہانی آپ سب کی نظر کر رہا ہوں جو انہوں نے مجھے سنائی تھی.

پانچویں چھٹی جماعت کا ایک طالب علم بچہ جس نے ایک دن چھٹی کی اور دوسرے دن جب وہ کلاس میں آیا تو حسبِ معمول جیسے کہ بچے ہوتے ہیں. کہ اب مزہ آۓ گا۔۔۔ ۔ اور ٹیچر سے ڈانٹ بھی پڑواتے ہیں... خیر..کلاس شروع ہوئی تو بچوں کا رویہ ہی بدل گیا ...وہ بچے خود بھی پریشان ہوۓ.. اور انہی اثنا میں ٹیچر بھی آگئی.. اور اس شور پر بچوں کو ڈانٹا اور کہا کہ کیوں اتنا شور کیا ہوا ہے... اور تم سب کیوں دور دور بیٹھے ہو یہاں اتنی جگہ خالی ہے... اس پر ٹیچر سمجھی اس بچے نے کوئی شرارت کی ہوگی اور بنا بچوں کے سنے ٹیچر کو یاد آیا کہ یہ بچہ تو کل آیا ہی نہیں تھا.... اس پر ٹیچر کو اور بھی غصہ آیا کہ ایک تو کل آیا نہیں تھا یہ بچہ اور آج آ کر باقی کلاس کے بچوں کو تنگ کر رہا ہے... یہ سوچ آتے ہی ٹیچر نے ڈنڈا اٹھایا اور جیسے ہی مارنے لگی ویسے ہی رک گئی کہ یہ کیا ہوا ہے... بچے کے ہاتھ میں چھالے تھے کافی..چھالے بھی ایسے تھے کہ جن میں پانی بار بار بھرا اور ہر چھالا پھٹ گیا ہو...اور ہاتھ کی کھال بھی ادھڑی ہوئی تھی... ٹیچر ایک لمحے کے لیے ڈر سی گئی کہ یہ کیا ہوا ہے... اور سوچنے لگی کہ شاید اس بچے کو کوئی بیماری ہے.. اس لیے کل آیا بھی نہیں ہوگا اور بچے بھی اس کے ساتھ بیٹھ نہیں رہے ہیں ...بلا آخیر ٹیچر نے بچے سے خود ہی پوچھ لیا .. بچے نے کہا ٹیچر مجھے کوئی بیماری نہیں ہے .. میں بالکل ٹھیک ہوں اس پر ٹیچر نے پوچھا یہ ہاتھوں کا حال دیکھو ایسے ہاتھ یہاں کسی بچے کے ہیں؟... اس پر وہ بچہ بولا ٹیچر میں اسکول کے ساتھ ساتھ ایک جگہ کام بھی کرتا ہوں۔ ٹیچر نے کہاکہ کیوں کام کرتے ہو.. ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو.. اور ایسی کون سے جگہ کام کرتے ہو بیٹا جو تمھارے ہاتھوں کا یہ حال ہوا ہے.. کہ صحیح سے لکھ بھی نہیں پاؤ گے۔ اس پر وہ بچہ بولا کہ ٹیچر میرے والد صاحب بیمار ہیں۔ کافی اور ہسپتال میں ہیں۔اس لیے میں کام کرتا ہوں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ۔۔ جہاں پینٹ کے بٹن لگتے ہیں نہ.. ٹیچر اس کارخانے میں جینز کے بٹن کی پنچنگ مشین ہے۔ جسے ہاتھ سے پنچ کرنا ہوتا ہے . اور مجھے اس گرم پنچنگ مشین کی ڈائی ہاتھ سے چلانی ہوتی ہے۔ بنا کسی گلوز کے۔۔۔کیوں کے میرے ہاتھ چھوٹے چھوٹے ہیں۔ میں اگر گلوز پہنتا ہوں تو صحیح پانچ نہیں ہوتا اور نہ ہی مُجھے گلوز دیئے جاتے ہیں۔۔.. جب ڈائی گرم ہوتی ہے تو فوراً اس کو پنچ کرنا ہوتا ہے ورنہ پنچ نہیں ہوتا اور صحیح پنچ نہ ہونے کی صورت میں مجھے پیسے نہیں ملتے..( ایک پنچ کے آٹھ آنے ملتے ہیں یہ کافی پرانی بات ہے اس وقت آٹھ آنے کی بھی بہت قدر ہوتی تھی). یہ سن کر ٹیچر کی آنکھیں بھر آئیں اور ٹیچر نے اس بچے کو اپنے بالکل سامنے والی کرسی پر بٹھایا اور کہا بیٹا کوئی بھی مسئلہ ہو آپ مجھے کہنا..اور بالکل پریشان نہیں ہونا.. اور پھر باقی بچے یہ منظر دیکھ کر حیران تھے اور پوری کلاس میں ایک خاموشی تھی پھر کوئی کچھ نہ بولا اور کلاس اپنے معمول کے مطابق ہوئی...

اس کہانی میں جو بچہ ہے وہ میرے والد صاحب تھے جن کا انتقال ہوگیا ہے27 -9 -2019 جمعہ کی صبح، میرے والد صاحب کا تعلق پاک نیوی سے تھا اور دادا کا بھی...والد صاحب ہمیں زندگی میں ہمیشہ سمجھاتے تھے کہ بیٹا زندگی میں اتنی محنت کرنا کہ زندگی کامیاب ہوجاۓ۔۔ اور سکھ اگر چاہتے ہو تو دکھ سے گزرنا پڑے گا.. محنت کرنی ہوگی بہت.. اور رات کے بعد ہی دن آتا ہے کالی اندھیری رات کے بعد ہی صبح کا اجالا ہوتا ہے.. آج اس حقیقی کہانی کو میں لکھ رہا ہوں کہ یہ زندگی کی حقیقت ہے.. سکھ دکھ زندگی کا حصہ ہیں بنا دکھ سے گزرے سکھ نہیں مل سکتا... اور کامیابی ہمیشہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ملتی ہے ایک پانچویں کلاس کا بچہ اگر اتنا سب کر کے پھر زندگی کے تمام تر چیلنجز کو عبور کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرتا ہے اور 36 سال پاک نیوی کے لیے سروس کرتا ہے اور اب اللّٰہ کو پیارا ہوجاتا ہے تو باقی ہر انسان بھی کر سکتا ہے کہ جس میں کچھ کرنے کی لگن ہو .... استاد ہمیشہ سبق دے کر امتحان لیتا ہے اور زندگی ہمیشہ امتحان لے کر سبق دیتی ہے .

اللّٰہ پاک میرے والد صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ آتا فرمائے آمین ثمّ آمین-
 

Shohaib haneef
About the Author: Shohaib haneef Read More Articles by Shohaib haneef: 17 Articles with 45265 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.