بے مثال ڈسپلن کی مثالی روایت

بے مثال ڈسپلن کی مثالی روایت

موجودہ حکومت کے خلاف قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا مارچ 27 اکتو بر سے جاری ہے، مارچ ہونا چاہیے تھا یا نہیں؟ اس سے نقصان ہوتا ہے یا فائدہ؟ کتنا ہوتا ہے اور کس کا ہوتا ہے، ان سب سوالات کا وقت اب گزر چکا ہے، سرِدست دو دھرنوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک دھرنا 2014 میں دیا گیا تھا جس میں مٹھی بھر لوگوں نے ملک دشمنی اور وحشی پن کا مظاہرہ کرکے اپنے ہی ملک کو بھرپور طریقے سے نقصان پہنچایا تھا، ملکی اور قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تھا، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ جیسے علامتی اداروں کو دھوبی گھاٹ بنایا گیا تھا اور اپنی ہی بہنوں سے شرم وحیاء کی چادر چھین کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیے انہیں برسرِ چوک نچوایا گیا تھا، وہ دھرنا جس کے نتیجے میں ملکی ترقی کا شدید نقصان ہوا، غیر ملکی صدور کے دورے متأثر ہوئے، قوم، ملک اور سلطنت کا پہیہ جام ہوا اور پاکستان کے امیج کو بری طرح مسخ کرکے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان غیر اخلاقی حرکات کو نئے پاکستان کی جدوجہد کا نام دیا گیا تھا۔ یہ سارے کرتب دکھانے کے باوجود انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوئے، حکومت گری اور نہ ہی خان صاحب کو کچھ فائدہ ہوا البتہ دھرنے کے دوران قوم کو جو سہانے خواب دکھائے گئے تھے انہیں حقیقت سمجھ کر کچھ بھولے بھالے لوگ خان صاحب کے گرویدہ ضرور ہوئے جن سے جناب آنے والے دنوں میں ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہوئے۔

چناچہ آج وہی سول نافرمانی پر لوگوں کو اکسانے والا، ہنڈی کے ذریعہ رقم ارسال کرنے پر ابھارنے والا، بجلی کے بلوں کو سرِ عام جلانے والا اور گیلی شلواریں، بزدل، چور، ڈیزل اور گدھے جیسے نازیبا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کرنے والا نئے پاکستان کا وزیراعظم ہے اور بیچ سڑک ٹریف کو روک کر ٹائر جلانے والا بہادر اس کا صدر ہے، جان اللہ کو دینی ہے جیسے الفاظ سے اپنی بات کو تقویت دینے والا بھی آج وزیر ہے اور جھوٹی بات سچ باور کرانے کے لیے درود شریف پڑھنے والا بھی منصب وزارت پر براجمان ہے۔

ایک دھرنا آج ہے، جس میں ہر طبقے سے آئے ہوئے لاکھوں لوگ شریک ہیں، جو نااہلوں سے آزادی کی جد و جہد میں "آزادی مارچ " کے نام سے جاری و ساری ہے۔

ایک سونامی ہے جس کی کوئی حد نہیں، ہر چار سو پھیلے ہوئے انسان ہی انسان ہیں۔ دلوں میں ولولے ہیں، ذکر کے غلغلے ہیں، نماز با جماعت کی پابندی ہے ترانوں، نظموں اور نعتوں کی گونج ہے شائستگی ایسی کہ کراچی سے لاہور تک، بلوچستان سے ملتان تک اور خیبرپختونخوا سے اسلام آباد تک کسی کو خراش آیا اور نہ ہی نظام زندگی معطل ہوا، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی رواں دواں ہے اور ٹریفک کی روانی بھی معمول کے مطابق ہے۔ بلکہ انسانی سروں کے بیچوں بیچ چلتی میٹرو کا منظر کچھ زیادہ ہی پرکشش ہے۔

مولانا کا مارچ آگے جاکر کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا لیکن اب تک مارچ کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے خوب لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے دھرنے کی کوریج پر مکمل پابندی عاید کر رکھی ہے۔ ڈرون کیمروں پر بھی پابندی ہے کہ کہیں شرکاء کی تعداد دیکھ کر خان جی اور ان کے معتقدین کی حالت مزید بگڑ نہ جائے۔ انٹرنیٹ سہولت کو بھی تھوڑا سا نزلے اور بخار نے پکڑا ہے لیکن آوازیں کب دب سکتی ہیں، لہجے کب قابو کیے جا سکتے ہیں، آزاد منش لوگوں کے جذبے کب ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں، حق کو کب مٹایا جا سکتا ہے، یہ لہریں اب ساحل سے ٹکرا کر ہی دم لیں گی، اب تک کی کامیابی یہ کیا کم ہے کہ جس انصار الاسلام کو دہشتگرد قرار دیا گیا تھا اس نے بے مثال ڈسپلن کی ایسی مثالی روایت قائم کی کہ جس پر تاریخ ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔ کاش نیازی صاحب اس مارچ سے شائستگی اور تہذیب کے چند نمونے لیکر اپنے بے لگام کارکنوں میں بانٹ سکیں! کاش وہ مولانا سے کارکنوں کی تربیت کا گر ہی سیکھ لیں! اس وقت سب سے اہم پوائنٹ پر امن طریقے سے ہدف کے حصول تک احتجاج کو جاری رکھنا ہے، اگر مولانا اور ان کے احباب اس پرخطر معرکے کو کامیابی کے ساتھ سر کرنا چاہتے ہیں تو مارچ کو پر امن رکھنے اور پر امن طریقے سے اختتام پذیر کرنے میں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا اور ان کے کارکنوں کو جذبات سے زیادہ ہوش سے کام لینا ہوگا اگر جمعیت کے قائدین اور کارکن اس مشکل امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں تو یہی ان کی اصل کامیابی ہوگی جس کے مستقبل میں دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ان شاءاللہ
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 36853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.