صدائے #قلب#
کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتہائی
کمزور بال پاکستان کے کورٹ میں پھینکی تھی جسے پاکستان صحیح طرح سے کور کر
کے اچھالنے میں ناکام رہا- اگرچہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اقوام
متحدہ میں کشمیرکے معاملے کو بہت ہی مثبت اور مناسب انداز میں اقوام عالم
کے سامنے اجاگر کیا لیکن بقول شاہ محمود قریشی کے کہ ہمارا بیانیہ کمزور
نہیں ہماری جیب خالی ہے- شاہ محمود قریشی کے بیان سے قطع نظر یہ بات بھی
حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت ہی اس کے بین الاقوامی اثرورسوخ کی
عکاس ہوتی ہے مسئلہ کشمیر پر عالمی سردمہری اس کی زندہ مثال ہے کیونکہ پوری
دنیا کے لئے بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے جس سے بہت سے ممالک کے تجارتی
مفادات وابستہ ہیں- دوسری طرف پاکستان ہے جس کو بہت سے اسلامی ممالک نے بھی
مسئلہ کشمیر پر سپورٹ نہیں کیا. پاکستان جو پوری دنیا میں کشمیریوں کا وکیل
سمجھا جاتا ہے کشمیریوں کو ان کی حقوق دلوانے اور بھارتی فورسز کا
غیرقانونی اور جبری محاصرہ توڑنے میں ناکام رہا- اگرچہ بھارت نے بین
الاقوامی دباؤ کے تحت مواصلات کا نظام جزوی طور پر بحال کیا ہے لیکن ابھی
بھی غیر اعلانیہ کرفیو کشمیریوں پر مسلط کیا ہوا ہے- افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ ہم یوم سیاہ بنا کر اپنے فرائض سے خود کو بری ذمہ سمجھنے لگتے
ہیں لیکن کشمیریوں پر چھائی ظلم کی سیاہ رات ہمارے یوم سیاہ بنانے سے مٹ
نہیں سکے گی- جا جا کشمیر سے نکل جا کے ترانے گانے سے بھی انڈین فورسز
کشمیر سے نکل نہیں جائیں گی. اور نہ ہی کشمیر کو حق دو بھارت کے جذباتی
نعرے لگانے سے بھی کشمیر کو آزاد ہو گا-
وزیراعظم عمران خان نے مظفرآباد میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ میری اقوام
متحدہ میں ہونے والی تقریر کا انتظار کیا جائے اب وہ بھی ہوگئی کشمیری اس
انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اب عمران خان آگے کشمیریوں کے لئے کیا لائحہ عمل
دیتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تقریر ہونے کے بعد تک ابھی تک
مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے کشمیریوں میں مزید اضطراب پایا جاتا
ہے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد پاکستان کے
زیر انتظام کشمیر میں قوم پرست جماعتوں کو عوام میں جو پذیرائی ملی ہے یہ
اس جانب واضح اشارہ ہے کہ آذاد کشمیر میں وہ سیاسی جماعتیں جو پروپاکستانی
سمجھی جاتی تھی عوام میں اپنی پذیرائی کھو رہی ہے - اس ساری صورتحال کو مد
نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسی مدبرانہ و محلصانہ پالیسی اپنانا ہوگی
جس سے کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور
انداز میں اجاگر کیا جاسکے - اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج
برآمد ہو سکتے ہیں کیونکہ حالیہ دنوں میں قوم پرست جماعت لبریشن فرنٹ کا
لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ اور پھر دھرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کے دھرتی
کشمیر کی عوام اب غلامی کا مزید طوق برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے. وہ
اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں چاہئے انہیں اس کی کتنی ہی
بھاری کیوں نہ ادا کرنی پڑے. اگر کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر کی وکالت اور
تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو حالات پاکستان اور بھارت دونوں
کے ہاتھوں سے باہر نکل جائیں گے. اس سے پہلے کہ کشمیریوں کا ضبط ٹوٹ جائے
پاکستان کو موثر سفارتکاری کے ذریعے اقوام عالم کو یہ باور کروانا چاہیے کے
مسئلہ کشمیر دو جوہری طاقتوں کے درمیان کسی بھی وقت مس ایڈونچر کا سبب بن
سکتا ہے کیونکہ اگر کشمیریوں کی جانب سے کوئی بھی منظم مسلح جدوجہد ی شروع
کی جاتی ہے تو بھارت روایتی طور پر الزام پاکستان پر لگائے گا اور اس طرح
دو جوہری طاقتیں جنگ کے دہانے تک پہنچ سکتی ہیں. انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں
جب کشمیری آزادی کا چڑھتا سورج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کے لئے انہوں
نے بھاری قیمت ادا کی ہے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.
ہے حق ہمارا آزادی
ہم لے کے رہیں گےآزادی
تو کیسے نہ دے گا آزادی
تیرا باپ بھی دے گا آزادی
|