آرمی زیادہ جمہوری ہے

آج کل یہ بات عام ہو گئی ہے کہ لوگ مذہب، ملک یا فوج کے خلاف بات کرکے خود کو دانشور ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس حوالے سے ایک تحریر ہے ، ہو سکتا فوج کے حق میں تصور کیا جائے مگر میں نے کوشش کی صرف ان کو جواب دیا جائے۔

وقت کے ساتھ جس طرح بہت سی اور چیزیں تبدیل ہوئی اسی طرح پہلے سیاسی مباحثوں کےلیے حمام کو جو مقام حاصل تھا اب وہی مقام تبدیل ہوا سوشل میڈیا کو حاصل ہو گیا۔ سیاسی مباحث کا چونکہ براہ راست تعلق دانشوری سے ہے اس لیے مکان کی تبدیلی کے دوران دانشوروں کی پیمائش کےلیے استعمال ہونے والے فارمولوں میں بھی تبدیلی آتی رہی۔ پرانے زمانے میں نائی کی دکان پر کوئی ایک شخص ایسا ہوتا تھا جو اخبار سے خبر پڑھ کر سناتا تھا اور باقی سب لوگ جو اخبار پڑھنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے اس خبر پر اپنا اپنا تجزیہ دیتے تھے۔ اس زمانے میں دانشوری ماپنے کا فارمولا یہ ہوتا تھا کہ جو کوئی خبر سے انتہائی دور کا مفروضہ تخلیق کرکے حاضرین کو سناتا تھا وہ سب سے مشہور دانشور کہلاتا تھا۔ جب اخبار سے بات نکل کر نجی ٹی وی چینلز پر آگئی تو اسی حمام فارمولے سے ٹالک شوز کرنے والے دانشوروں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہی حمام کے حاضرین ریٹنگ کا فیصلہ کرنے والے بن گئے۔ نتیجے میں وہ سارے اینکرز، تجزیہ نگار اور صحافی سب سے زیادہ ریٹ کیے جانے لگے جو حقیقت سے بہت دور کا مفروضہ "گھڑنے" میں ماہر تھے۔ اور یوں ڈاکٹر شاہد مسعود اور نجم سیٹھی وغیرہ بڑے دانشور بن گئے کیونکہ یہ لوگ اندر کی وہ باتیں (مفروضے) بتاتے تھے جو خبروں میں کبھی نہیں آتی تھی۔

دانشوری کا شوق لےکر جب نصف خواندہ لوگوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا تو ان کے ذہن میں بھی ریٹنگ اور دانشوری کا پیمانہ وہی تھا ، کہ سب سے بڑا دانشور وہی سمجھا جائے گا جو جتنی حقیقت سے دور کی بات کرےگا۔ یہ فارمولا ایک عرصے تک تو چلتا رہا مگر دانشوروں کی اتنی بہتات ہوگئی کہ ایک نیا فارمولا ایجاد کرنا پڑا۔ وہ فارمولا یہ تھا کہ جو بات سب لوگ کر رہے ہوں اس کے برعکس بات کی جائے۔ گمنام سوشل میڈیائی دانشوروں کے علاوہ اس فارمولے پر عمل کرنے والوں کی ایک معروف مثال طلعت حسین صاحب ہیں۔ اب یہ فارمولا بھی فیل ہو چکا اور ثبوت کے طور پر طلعت صاحب کا یوٹیوب چینل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

دانشوروں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ آج کل ایک اور تیر بحدف اور مجرب نسخہ دانشوری ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ نسخہ ساشے پیک اور ملٹی پل فلیورز میں بھی دستیاب ہے۔ اس نسخے کے تین اجزا: مذہب، ملک اور آرمی ہیں۔ ترکیب استعمال یہ ہے کہ ان تین عناصر میں سے جس کے ساتھ بھی آپ کی روزی روٹی منسلک نہیں اس کو ٹھوک کر گالی دے دیں اور لمحوں میں دانشور بن جائیں۔ آج کل عمران خان کی برکت سے سب گالی دینے والے مل کر مولانا فضل الرحمان کے جھنڈے تلے آرمی کو گالی دے رہے اس لیے میں صرف اس جز کے حوالے سے کچھ حقیقتیں رکھنا چاہتا ہوں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ باقی اداروں کی طرح ہوسکتا ہے آرمی کے کچھ اقدام کا نتیجہ اس ملک کے حق میں نہیں نکلا مگر تاریخی حقائق پر غور کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سویلین بھی ان اقدام میں برابر کے شریک تھے۔ درحقیت میں اس نئے فارمولے کی پیداوار نام نہاد دانشوروں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس میٹر پر بھی پرکھا جائے ، پاکستان کی آرمی ہماری تمام مین سٹریم سیاسی جماعتوں (شاید ماسوائے جماعت اسلامی کے) سے زیادہ جمہوری ہے۔ آرمی میں ضیاالحق کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا آرمی چیف نہیں بنا۔ دوسری طرف وفاق کی علامت سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی کے سربراہ کے بعد اس کی بیٹی ہی پارٹی سربراہ بنی اور ابھی تک یہ سلسلہ آب و تاب سے جاری ہے۔ آرمی میں چاہے جو جتنا مرضی طاقت ور ہو جائے وہ مسلم لیگ نون کے تا حیات قائد نواز شریف کی طرح تاحیات آرمی چیف نہیں بن سکتا۔ آرمی میں یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی ریٹائرڈ ڈی جی آئی ایس پی آر ذاتی رنجش کی وجہ سے موجودہ آرمی چیف کے خلاف راولپنڈی میں بندے لے کر پہنچ جائے اور آرمی چیف کو ہٹنے کےلیے دو دن کا مہلت دے دے۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ کوئی آرمی چیف اپنے کورکمانڈرز سے مشورہ کیے بغیر اپنی من مانی سے کوئی انتہائی اہم فیصلہ کرلے۔ یہ من مانیاں اور ون مین شوز صرف جمہوری سیاسی جاعتوں میں ہوتے ہیں۔

قدرتی طور پر اس بات کے چانسز بھی زیادہ ہیں کہ آرمی کے اہم آفیشلز ہمارے سیاست دانوں سے زیادہ ایماندار ہوں۔

اس کی وجوہات یہ ہیں کہ سیاست میں شاذ و نادر ہی کوئی شخص ملک کی خدمت کےلیے آئے، کیونکہ زیادہ تر لوگ بس کرپشن کرنے یا کرپشن چھپانے کےلیے آتے ہیں جبکہ اس کے برعکس آرمی میں کرپشن کرنے کی نیت سے شاذ و نادر ہی کوئی نوجوان آئے۔ آرمی میں بہت سے کامیاب طالب علم صرف ملک کی خدمت کی نیت سے آتے ہیں جبکہ سیاست میں شاذ و نادر ہی کوئی کامیاب پروفیشنل محض ملک کی خدمت کی غرض سے آئے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست میں آنے والے کامیاب پروفیشنلز پر ان کے کٹر سے کٹر دشمنوں نے بھی بد اعنوانی کا الزام نہیں لگایا، اسد عمر اور عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ حب الوطنی کے حوالے سے اگر آرمی چیف کو سویلینز کا خیال نہ بھی ہو تو لاکھوں سپاہی جو اس کی تنظیم کا حصہ ہیں ان کےلیے وہ اپنے بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور جانتا ہے کہ ملک کو کوئی نقصان سب سے پہلے ان کو نقصان پہنچائے گا۔ اس کے برعکس مولانا فضل الرحمان صاحب اپنی تنظیم کے کارکنوں کو اس امید پر اسلام آباد لائے کہ خدا نخواستہ دس پندرہ ہلاکتیں ہوں اور اس کے مخالف عمران خان کےلیے مشکلات پیدا ہوں۔

مذکورا بالا باتوں سے میں نہ تو یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری آرمی میں فرشتے ہیں، اور نہ یہ جسٹیفائی کرنا چاہتا ہوں کہ جمہوری پراسس میں ان کا کوئی رول ہونا چاہیے؛ مگر مقصد یہ باور کرانا ہے کہ یہ آرمی کوئی اسرائیل کی آرمی ہے اور نہ اس ادارے کے کام کرنے والے لوگ اچھوت ہیں۔ چونکہ آرمی ایک ماتحت ادارہ ہے اس لیے ان کا حکومت کے ساتھ ہونا ملک سے غداری نہیں بلکہ آئین کی پاسداری ہے۔ جن ممالک کی آرمی کمزور ہوتی ہے ان کے انجام کی مثالیں مصر، شام اور لیبیا کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اور ہاں یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ دانشوری کا یہ ساشے پیک نسخہ بھی در اصل ایک محدود مدت کےلیے ہے اور جس طرح تھوک کے حساب سے اس فارمولے کے ساتھ دانشور بن رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ اس نسخے کی مدت باقی فارمولوں کی مدت سے بھی کم ہو۔

 

Pervaiz Kareem
About the Author: Pervaiz Kareem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.