سیاسی کچرا

پاکستان میں ڈینگی کا پہلا کیس 1994 میں ریکارڈ کیا گیا ۔ صرف بلوچستان کے علاقے لسبیلہ سے مریضوں کی تعداد 1000 تھی اْس سال پورے پاکستان میں تقریباً 1800 افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ھوئے تھے۔

نومبر 2010 میں 21,204 ڈینگی وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو ئی اور سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد پنجاب میں تھی یہ صورتحا ل کسی آفت سے کم نہیں تھی۔پنجاب میں اُس وقت شہباز شریف کی حکومت تھی ۔پنجاب حکومت حرکت میں آئی ڈینگی کے لیے ایمرجنسی رسپانس کمیٹی بنائی گئی اور اُس کا چیرمین خواجہ سعد رفیق کو بنایا گیا اور پھر اُس کمیٹی نے کمال کر دیا ۔ڈینگی کی روک تھام کے لئے مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ پرائیوٹ ہسپتالوں نے بھی ڈینگی کے مریضوں کے لئے ایمرجنسی وارڈز بنا دیں ۔ ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 90 روپے مقرر کر دی گئی تمام سرکاری اور پرائیوٹ لیباٹریز کو اس قیمت پر ٹیسٹ کرنے کے لیے پابند کر دیا گیا۔پنجاب ہیلتھ لائن کے نام سے ہاٹ لائن بنا دی گئی جو عام عوام کو ڈینگی کے متعلق آگاہی فراہم کرتی تھی ۔ ڈینگی ٹیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو ڈینگی سے بچاؤ اور لاروا کی روک تھام کے لئے ہدایات دے رہی تھیں صبح شام سپرے معمول کی بات تھی ۔ ٹائرز ڈینگی لاروا پھیلانے کی بہت بڑی وجہ بنتے ہیں حکومت نے ٹائرز دوکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا میں نے کسی حکومت کا کسی بھی مسئلہ کے خلاف اتنا شدید کریک ڈاؤن اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔ نومبر 2011 میں شہباز شریف نے سری لنکن گورنمنٹ سے مدد کی اپیل کی سری لنکا نے اپنی 12 ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم کو پا کستان بجھوا دیا اُ س ٹیم کے مطابق پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں اور ڈینگی وائرس بُرے طریقے سے پھیل چکا ہے سری لنکن ڈاکٹرز کی ٹیم کے مطابق 25,000 کے اموات ہوں گی۔لیکن شہباز شریف اور اُن کی ٹیم نے 350 لوگوں کے نقصان پر ہی نہ صرف ڈینگی پر قابو پا لیا بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا ۔اس کے برعکس تبدیلی حکومت نے آتے ہی ڈینگی ٹیمیں ختم کر دیں ڈینگی بچاؤ سپرے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا آخری دو مہینے میں 10,000ڈینگی مریضوں کی تشخیص ہوئی ھے اوراُن میں سے سب سے زیادہ مریضوں کا تعلق کے پی کے سے ہے۔میں اس بات پر قائل ہوں کے عمران خان ایماندار شخص ہیں اور پاکستان کے لیئے کچھ اچھا کرنا بھی چاہتے ھیں لیکن جو سیاسی کچرا اپنی جماعت میں انھوں نے بھر لیا ھے وہ نہایت نا اہل اور بدزبان لوگ ہیں ۔

آپ دیکھ لیں کہ الیکشن سے پہلے جن اشخاص پرعمران خان کو سب سے زیادہ توقعات تھیں اور جو لوگ ٹی وی پر سب سے زیادہ دعوے کرتے نظر آتے تھے آجکل سب غائب ہیں۔مثلا اسد عمر جو معشیت جو خود کو معیشت کا چمپین کہتے تھے بُرے طریقے سے ناکا م ہوے بلکے معیشت کا بیڑہ غرق کر کے چلے گئے۔شا ہ محمود قریشی کی کہا نی بھی کشمیر والے معاملے پر اس سے مختلف نہیں ھے ۔پنجاب میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے جو کیا یا کر رھی ہیں وہ زبان زد خاص و عام ہے اس سے بُری حالت پنجاب کے ھسپتالوں کی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔فردوس عاشق اعوان جو کر اور کہہ رہی ہیں وہ روز ہم ٹی وی پر دیکھ اور سن رھے ہیں ۔باقی ریلوے کے وزیر ریلوے سے زیادہ سیاسی پیشنگوئیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اُن کی نظر ریلوے کی بجائے باقی وزارتوں میں کیا ہو رہا ھے اُس پر ہوتی ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2018-2019 کے آڈٹ میں 97 ارب کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔بس یہ سارا سیاسی کچرا عمران خان اور اُن کی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے کافی ہیں۔ آپ باہر نکل کر لوگوں سے ملیں تو یقین کریں ہر شحص عمرا ن خان حکومت کے خاتمے کی د عا مانگتا نظر آئے گا۔

عمران خان کو چاہیے کابینہ کے تمام کچرا جو کام نہیں کر رھا فارغ کر دیں خصوصی طور پر پنجاب سے تمام نااہل لوگوں کو چُٹھی پر بجھوا دیں کیونکہ پنجاب میں لوگ موجودہ حکومت کے کا م کا موازنہ پچھلی حکومت سے کرتے ہیں اور شہباز شریف کی رفتار کو پکڑنے کے لیے بہت اہل اور زمہ دار لوگوں کی ضرورت ہے۔ ابھی ڈینگی والے معاملے میں بھی صرف شہباز شریف فیکٹر ہی مسنگ لگا ہے کیونکہ 90 فیصد بیوروکریسی وہی ہے بس نہیں ھیں تو شہباز شریف نہیں ہیں۔
 

Ali Sultan
About the Author: Ali Sultan Read More Articles by Ali Sultan: 22 Articles with 16750 views I am basically from a village in the vicinity of Jhelum. came to Lahore in 2005 to pursue my career and goals.i am enthusiastic writer, keen observer .. View More