لاہور سے تقریباً 125 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال
میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے ’کرتارپور ‘‘کہا جاتا ہے۔یہ وہ
جگہ ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے
صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور
راہداری کھولنے کیلئے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان باضابطہ
افتتاح نو نومبر کو کریں گے جس میں بھارت سے بھی کئی اہم شخصیات شرکت کریں
گی۔کرتارپور بارڈر کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ کہ اس بارڈر کو اگر
آپ نے کھولنا ہی ہے تو ضرور کھولئے لیکن ویز ا فری قرار نہ دیا جائے اور
ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ یہ کاریڈور صرف سکھ زائرین کے
لیے ہی ہواور اس بات کو بھی اب بھارت سے منوانا چاہیے کہ وہ کشمیر تک کا
راستہ دے تاکہ دونوں اطراف کے کشمیری مسلمان ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں۔
سنجیدہ طبقات کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ مغربی طاقتوں کے دباؤ میں آکر،
سکھوں کا نام استعمال کر کے یہ بارڈر قادیانیوں کو باہم سہولت پہنچانے
کیلئے کھولا جا رہا ہے کیونکہ کرتارپور سے قادیان کا قصبہ صرف اٹھائیس میل
کے فاصلے پر ہے۔ اس تشویش کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ قادیانیوں کا
اخبار’’ربوہ ٹائمز‘‘ کرتارپور بارڈر سے سرحد کے دونوں اطراف آباد قادیانیوں
کے لئے دونوں ملکوں سے بغیر ویزہ آمدورفت کی باقاعدہ تحریک چلارہاہے۔علاوہ
ازیں کرتار پور راہداری کے افتتاح کے بعد نوجوت سنگھ سدھو کی ایک ویڈیو
منظر عام پر آئی جس سے اس کے قادیانیت کے ساتھ گٹھ جوڑ کے واضح اشارے ملتے
ہیں۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ مشرف دور میں پاکستان نے جب عالمی طاقتوں کے
زیر اثر کشمیر پر راہدرریوں کی بات کی تھی تو بھارت نے فوراً قادیانیوں کے
لئے سہولت کا مطالبہ کردیا تھا۔اس سے پہلے ن لیگ کے دور میں بھی بھارت نے
ایسی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے سکھوں کی سہولت کے لئے کرتارپور بارڈر کھولنے
کی پیش کش کی تھی، تاہم بھارت اب اس کو قادیانیوں کے لئے بروئے کار لانے کے
لئے سرگرم ہوچکا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ایسے ٹی اوآرز پر پاکستان کو قائل
کرے جو فوری طورپر نہیں تو کم ازکم آنے والے برسوں میں قادیان تک پاکستان
میں بسنے والے قادیانیوں کے لئے آسان تر رسائی کا ذریعہ ضرور بن سکے۔
قادیانیوں کے حوالے سے تحفظات اس لئے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کو نہیں مانتے۔
آقائے نامدار ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہونے کی وجہ سے دینی و آئینی لحاظ سے
غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلامی شناخت کی چوری کے مرتکب ہیں اس کے علاوہ یہ
بھی خیال رہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، وہ ہمیشہ
پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہ کام وہ بہت
عرصے سے کررہا ہے، سقوط ڈھاکہ میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا، اس سے بھی قبل
1968 میں’’اگرتلہ ‘‘سازش کیس سامنے آچکا ہے جس میں بھارت ملوث ہے۔ بھارتی
جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد یہ بھی واضح ہوا کہ گزشتہ برسوں میں
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں بالخصوص پاکستان بحریہ کے جوانوں اور ان
کے اڈوں پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ کلبھوشن ہی تھا۔ چینی سفارتخانے پر ہونے
والے دہشت گردی کے حملے میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا۔توپھر کیا خیال ہے کہ
بھارت اس کاریڈور کے کھلنے اور ویزہ فری ہونے سے فائدہ نہیں اٹھائے گا؟ کیا
وہ اپنے جاسوسوں کو اس راستے سے پاکستان میں داخل نہیں کرے گا؟ مرحوم شورش
کاشمیری(ہفت روزہ چٹان کے بانی مدیر) کی کتاب’’تحریک ختم نبوت’’ قریبا نصف
صدی پہلے شائع ہوئی تھی۔انھوں نے کچھ انکشافات کئے تھے، ان کا مطالعہ کیجئے
اور پھر کرتارپور بارڈر کی خبروں کو دوبارہ پڑھئے، آپ کے سامنے کا سارا
منظرنامہ ہی بدل جائے گا، مرحوم شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘
کے صفحہ 224 پر لکھتے ہیں:‘‘یورپ کی نظریاتی و استعماری طاقتیں نہ تو اسلام
کو بطور طاقت زندہ رکھنے کے حق میں ہیں اور نہ اس کی نشاۃ ثانیہ چاہتی ہیں۔
ہندوستان کی خوشنودی کے لئے پاکستان ان کی بندربانٹ کے منصوبہ میں ہے۔ وہ
اس کو بلقان اور عرب ریاستوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم کرنا
چاہتی ہیں۔ ان کے سامنے مغربی پاکستان کا بٹوارہ ہے، وہ پختونستان،
بلوچستان۔ سندھودیش اور پنجاب کو الگ الگ ریاستیں بناناچاہتی ہیں۔ ان کے
ذہن میں بعض سیاسی روایتوں کے مطابق کراچی کا مستقبل سنگاپور اور ہانگ کانگ
کی طرح ایک خودمختار ریاست کا ہے۔ خدانخواستہ اس طرح تقسیم ہوگئی تو پنجاب
ایک محصور(Sandwitch) صوبہ ہوجائے گا، جس طرح مشرقی پاکستان کا غصہ مغربی
پاکستان میں صرف پنجاب کے خلاف تھا، اسی طرح پختونستان،بلوچستان اور
سندھودیش کو بھی پنجاب سے ناراضی ہوگی، پنجاب تنہارہ جائے گا تو عالمی
طاقتیں سکھوں کو بھڑکا کر مطالبہ کرادیں گی کہ مغربی پنجاب ان کے گورؤں کا
مولد، مسکن اور مرگھٹ ہے لہٰذا ان کا اس علاقہ پر وہی حق ہے جو یہودیوں کا
فلسطین(اسرائیل) پر تھا، اور انھیں وطن مل گیا۔عالمی طاقتوں کے اشارے پر
سکھ حملہ آور ہوں گے، اس کا نام شاید پولیس ایکشن ہو۔ جانبین میں لڑائی
ہوگی لیکن عالمی طاقتیں پلان کے مطابق مداخلت کرکے اس طرح لڑائی بند کرادیں
گی کہ پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب سے پیوست ہوکر سکھ احمدی ریاست بن جائے
گا جس کا نقشہ اس طرح ہوگا کہ صوبہ کا صدر سکھ ہوگا تو وزیراعلیٰ قادیانی۔
اگروزیراعلیٰ سکھ ہوگا تو صدرقادیانی! اسی غرض سے استعماری طاقتیں قادیانی
امت کی کھلم کھلا سرپرستی کررہی ہیں۔ بعض مستند خبروں کے مطابق سرظفراﷲ خاں
لندن میں بھارتی نمائندوں سے پُخت وپُز کرچکے ہیں۔ قادیانی اس طرح اپنے نبی
کا مدینہ(قادیان) حاصل کرپائیں گے جو ان کا شروع دن سے مطمح نظر ہے اور سکھ
اپنے بانی گورونانک کے مولد میں آجائیں یہی دونوں کے اشتراک کا باعث ہوگا۔
قادیانی عالمی استعمار سے اپنی ریاست کا وعدہ لے چکے ہیں اور اس کے عوض
عالمی استعمار کے گماشتہ کی حیثیت سے اسرائیل کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے وہ
مسلمانوں کی صف میں رہ کر عرب ریاستوں کی بیخ کنی اور مخبری کے لئے افریقہ
کی بعض ریاستوں میں مشن رچاکے بیٹھے ہیں اور حیفا(اسرائیل) میں حکومت یہود
کے مشیر برائے اسلامی ممالک ہیں۔ وہ پاکستان میں حکمران جماعت کے ہاتھوں
سرحدوبلوچستان کی نمائندہ جماعت کو پٹوا کرپنجاب و سندھ میں اسلامی ذہن کے
قتل عمد سے موعودہ استعماری صوبہ کی آبیاری کررہے ہیں۔ اور اس وقت طاقتوں
کی معرفت اسرائیل اور ہندوستان کے آلہ کار ہیں اور یہ ہے ان کا سیاسی چہرہ
جس سے ان کا داخلی وجود ظاہر ہوتاہے‘‘
|