1947،جموں کے حالات اور ہجرت!

آزاد کشمیر کے پہلے سول سروس امتحان میںکامیاب ہونے والے بیوروکریٹ طارق مسعود سے چند ماہ قبل، وفات سے چند ہی ہفتے پہلے ایک تفصیلی انٹرویو کیا جس میں انہوں نے اپنی حالات زندگی کے علاوہ آزاد کشمیر سے متعلق مختلف واقعات بھی بیان کئے۔اس انٹرویو کے '' بیک اپ'' کے طور پر ان کے ساتھ مزید نشستیں ہونی تھیں،جو نہ ہو سکیں۔طارق مسعود (مرحوم) کی انٹرویو میں کہی گئی باتیں تحریر میں آنے کے بعد تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔طارق مسعود صاحب کی وفات کے بعد ،ان کے لئے ایک دعائیہ محفل میںان کے فرزند حسن سے میں نے کہا کہ باپ کی وراثت میں جائیدار و اسباب کے علاوہ ان کی روایات،طور طریقے بھی شامل ہوتے ہیں، جن کی پاسداری اہم ہوتی ہے۔قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر ،یوم شہدائے جموں کے حوالے سے اس انٹرویو کے چند حصے پیش خدمت ہیں۔

جموں میں ہماری فیملی نے جرگہ کیا ،بڑے تایا نے فیصلہ کیا کہ سب گجرات چلو،گجرات میںہمارے دو تائے پہلے سے رہتے تھے،پھر یہ تھا کہ آج رک جائو کل فلاں کا وہ کام ہے،بڑے کنبے نے چلنا ہو تو کوئی نہ کوئی بہانہ ہو جاتا ہے،فلانے کا بچہ ہونے والا ہے ،فلاں کا یہ ہو گیا وغیرہ۔اتنے میں وہاں پرمٹ سسٹم شروع ہو گیا کہ آپ جموں سے سیالکوٹ بغیر پرمٹ کے نہیں جا سکتے تھے،میرے والد پرمٹ بھی لے آئے ،وہ ہمارے پاس اب بھی کہیں پڑا ہوا ہے،چلنے کی تیاری کرنے لگے،سٹی انسپکٹر تھاراجہ صحبت علی،بھمبر راجہ امداد علی،راجہ مقصود جو کمشنر تھے،کے تایا جموں شہر کے پولیس انسپکٹر تھے،انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ صبح جا رہے ہیں،آپ نے صبح نہیں جانا،آّج ایک ٹانگا انہوں نے راستے میں روکا اور سواریوں کو مار دیا،کل میں ایک تفتیش پہ جا رہا ہوں،میں واپس آ جائوں تو میں خود آپ کو چھوڑ کر آئوں گا۔ہم رک گئے۔

یہ یکم یا دو نومبر 1947کی بات ہے،راجہ صحبت علی تفتیش کرنے گئے اور واپس ہی نہیں آئے،وہ جس گائوں میں تفتیش کے لئے گئے وہاں سنگھ پارٹی نے انہیں شہید کر دیا۔ان کے ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں جو انگلیوں سے اتری نہیں تو وہ انگلیاں ہی کاٹ کر ساتھ لے گئے،اسی صورتحال میں ہم نے اپنا مکان چھوڑا،ہمارا مکان جموں میں ہندوئوں کے علاقے میں تھا،اس کے تینوں اطراف ہندو آبادی تھی،چوتھی طرف آخری مکان ہمارا تھا،تین منزلہ مکان تھا،سب کی نظر اس مکان پر تھی،کیونکہ اس گھر میں رہنے والے سب آسودہ حال تھے،سرکاری ملازم تھے،والد میرے ڈاکٹر تھے،چچا کسٹم میں تھے،تیسرے پی ڈبلیو ڈی میں تھے،یہ مکان چھوڑ کر ہم تالاب کٹھیکاں گئے اور وہاں ایک مکان میں رہنے لگے،ابھی ہم وہاں پہ ہی تھے کہ مسلمانوں کی اس آبادی کا گھیرائو کر لیا گیا،تالاب کھٹیکاں میں تقریبا ہزار ،بارہ سو خاندان جمع تھے،ارد گرد ذرا دور ہندو تھے،روز فائرنگ ہوتی تھی روز دو چا ر مسلمان ان کی فائرنگ سے ہلاک ہو جاتے تھے.

میرے والد اور ڈاکٹر کریم ملک ،جو سیالکوٹ میں فوت ہو گئے ہوئے ہیں،ان دونوں نے ایک کیمسٹ کی دکان کا تالہ توڑا اور وہاں سے دوائیاں وغیرہ نکال کر بیمار افراد اور زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال شروع کی۔جلد ہی طبی سہولیات کا سامان ختم ہو گیا۔میرے والد سینئر ڈاکٹر تھے،اس وقت تک علاقے میں خاکروب آتے جاتے تھے،انہوں نے ایک خاکروب کے ذیعے مین ہسپتال کے میڈیکل سپریٹینڈنٹ کو سلام بھیجا ،خاکروپ کو کہا کہ انہیں کہنا کہ رحمت اللہ نے سلام بھیجا ہے،وہ سکھ تھا ،ڈاکٹر پرتاپ سنگھ کھوسلہ، سفید داڑھی،سفید کھدر کی پگڑی،سفید کھدر کی قمیض، کھدر کا پاجامہ،اگلے دن اس کے ساتھ تین افراد ہمارے پاس ٹوکرے، اٹھائے ہوئے آئے،جس میں مرہم پٹی کا سامان،جتنی چیزیں ہو سکتی تھیں،وہ سکھ ہمیں کبھی بھولے گا نہیں،اس زمانے میں اپنی جان پر کھیل کر کسی کی امداد کرنا، ہم ہمیشہ اس کی مثال دیتے ہیں،ساری دنیا ہی خراب نہیں ہوتی،دس میں سے نو افراد خراب ہوتے ہیں تو ایک بہت اعلی ہوتا ہے۔

محاصرے میں پھنسے مسلمانوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں تھا،ہاکی سٹک،چاقو،ان سب میں سے ایک کے پاس ریوالر تھا،بزرگوںنے نوجوانوں سے کہا کہ دیوار میںسوراخ کر کے ایڈ جونٹ جنرل سمندر خان،ایئر مارشل اصغر خان کے تایا ،کے گھر جائو،ایئر مارشل اصغر خان کے والد کا نام تھا برگیڈیئر رحمت اللہ خان، ان کا بڑا بھائی تھا میجر جنرل سمندر خان ( ڈوگرہ مہارجہ کی فوج میں)۔بزرگوں نے کہا کہ شاید کوئی اسلحہ وہاں سے مل جائے،۔نوجوان کسی طریقے سے وہاں پہنچے،ان گھر مقفل تھے،انہوں نے جنرل سمندر خان کے گھر کے تالے توڑے ، بزرگوں کی بات درست ثابت ہوئی،جنرل سمندر خان کے گھر سے دو رائفلیں جدید قسم کی اور بہت سا ایمونیشن ملا، رات کو انہوں نے آ کر بتایا تو سب بہت خوش ہوئے،یہ رائفلیں استعمال ہوئیں تو جن لوگوں نے ہمیں گھیرائو میں لیا ہوا تھا،وہ تھوڑے سے ڈر گئے کہ ان کے پاس تو خاصہ اسلحہ معلوم ہوتا ہے۔

ایک کیپٹن نصیر الدین تھے،1947-48میں آزاد کشمیر حکومت کے شروع میں وہ حکومت میں بھی رہے ہیں،وہ برٹش آرمی کے کپتان تھے،انہوں نے ہمارے نوجوانوں کو سکھایا کہ جس وقت کچھ نہیں ہوتا ،اس وقت بھی آدمی لڑ سکتا ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو سکھایا کہ کس طرح پہرہ دینا ہے،باقیوں کو کس طرح اطلاع دینی ہے۔محاصرے میں موجود سب لوگ صبح قرآن شریف پڑھتے،بچے قرآن شریف یاد کرتے،تیسواں سپارہ سب بچوںنے یاد کر لیا۔اسی دوران ایک دن فائرنگ رک گئی۔

یہ دو یا تین نومبر 1947کی بات ہے،ڈوگرہ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان جانے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا،جو لوگ پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ ایک بستر اور ایک صندوق لیکر پانچ نومبر کی صبح ،بد ھ کا دن،پولیس لائین میں پہنچ جائیں۔سب اپنا سامان اٹھائے پولیس لائین کی طرف چل پڑے۔فالتو سامان راستے میں مہاراجہ اور پٹیالہ کی فوج نے چھین لیا،پولیس لائین میں بے شمار لوگ تھے،گاڑیاں بھی موجود تھیں،ہر کسی کی کوشش تھی کہ وہ گاڑی پہ سوار ہو جائے،وہاں سفارش بھی چل رہی تھی،ہم اس میں کسی حد تک کامیاب رہے اور ہمیں گاڑیوں میں جگہ مل گئی،پینتالیس،پچاس لاریاں تھیں،اس لاری میں سترہ سیٹیں ہوتی تھیں،ہمارے لوگ تقریبا پندرہ سو،دو ہزار تھے،لاریوں میں لوگ ٹھونسے گئے ،جتنے لاریوں میں آئے،باقی وہیں بیٹھے رہے ۔

آگے چل کر لاریوں کا قافلہ بجائے سیالکوٹ جانے کے پکی سڑک چھوڑ کر کٹھوعہ کی طرف موڑا تولوگوں کو سمجھ آ گئی کہ ان کی نیت ہمیں مارنے کی ہے،عورتیں اونچی آواز میں رونے لگیں۔پاکستان کے باڈر سے تین چار میل کے فاصلے پہ ایک جگہ ' ماوا' کے مقام پر انہوں نے لاریاں کھڑی کر دیں،مسافروں کوباہر نکالا اور انتظار کرنے لگے۔ہم وہاں شام کو پانچ ،ساڑھے پانچ بجے پہنچے تھے،وہ وہاں سنگ پارٹی کا انتظار
کر رہے تھے ، وہ نہ پہنچے تو انہوں نے تقریبا ساتھ بجے کے قریبسامان چھیننا اور عورتیں کو ایک طرف ہٹانا شروع کر دیا،جب یہ شروع ہوا تو ہڑ بڑ مچ گئی اور لوگ اٹھ کر بھاگنا شروع ہو گئے،انہوں نے فارئرنگ شروع کرنے سے پہلے دوسرے ہتھیاروں سے لوگوں کو مارنا شروع کر دیا،لوگوں کو معلوم تھا کہ مغرب کی سمت پاکستان ہے،وہ اس طرف بھاگنے لگے،وہاں اینٹوں کے بھٹے تھے،کچھ اس میں گر گئے،پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔

پانچ نومبر ،بدھ کا دن،ساری رات ہم بھاگتے رہے،میں نو ،ساڑھے نو سال کا تھا،میرا ایک جوتا بھی کہیں رہ گیا تھا،دوسرا جوتا بھی پھینک دیا ،چناچہ میں ننگے پائوں پاکستان پہنچا،بھاگنے والے ہم تقریبا پندرہ سو افراد تھے جو بھاگتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے،دو کے چار،چار کے آٹھ حصے ہو گئے،ہم تقریبا ڈیڑھ سو افراد تھے،،کبھی کتوں کی آواز آتی تو ہم چھپنے کی کوشش کرتے،میرا چھوٹا بھائی عارف کمال ایک سال کا تھا،اس کو ایک ملازم نے اٹھایا ہوا تھا،وہ رونے لگتا تو لوگ کہتے کہ اس کا گلا گھونٹو،اس کی وجہ سے ہم پکڑے جائیں گے۔

ساری رات بھاگتے بھاگتے ہم صبح کاذب کے وقت ہم ایک چھوٹی سے ندی کے پاس ایک آدمی دیکھاجس کا لباس تھوڑا سا مختلف تھا،اس کا لباس ڈوگروں کی طرح کا نہیں تھا،وہ پنجابی معلوم ہو رہا تھا،لوگوں نے اسے پکڑ لیا کہ ہم کہاں ہیں؟ تم کون ہو؟اس نے کہا کہ میر انام ملک دین ہے ،تم پاکستان میں ہو،تم دو میل پاکستان کے اندر آ چکے ہو۔یہ سن کر لوگ وہیں سجدے میں گر گئے۔اس نے کہا کہ قریب ہی گائوں ہے وہاں چلو،یہاں وہ حملہ کرتے ہیں۔چھ نومبر کی صبح ہم '' چنگ '' نامی گائوں پہنچے۔
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611914 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More