"22نومبر 2014" میری زندگی کی سب سے بڑی رات تھی ۔
جب ٹھنڈی ہوائیں زوروں کی چل رہی تھی جیسے ہم بلوچی میں (گوریچ) کہتے ہیں
یہ ہوائیں سردیوں کے موسم کو اور دلکش کردیتی ہے اور ڈھنڈ بڑانے میں گوریچ
کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ وہ رات جب دو بج رہے تھے اور میں ایس ایم ایس کے
ذریعے اُس لڑکی سے بات کررہا تھا جس کا نام میں نے پیار سے موڈل رکھا ہے ۔
باتوں باتوں میں میں نے لکھا کہ اس ٹھنڈ میں آپ دیدار ہوسکتی ہے؟ صرف گھر
کے دروازے تک آسکتی ہو؟
موڈل کہنے لگی ۔"پاگل ہو کیا اس موسم میں تو بستر سے باہر نکلنا مشکل ہے
اور میں کیسے باہر آجاوں جب کے میری فیملی بھی سو رہی ہے اور میں دروازہ
کھول دوں تو سب جاگ جائیں گے نہیں میں نہیں آسکتی۔۔۔۔
جب میں نے مزید التجاء کی تو وہ مجبوریوں کو سمھجنے کا کہنے لگی اور میں
محبت سمجھانے لگا کیونکہ میں موقع کو گنوانا نہیں چاھتا تھا اور مجھے ڈر
تھا کہ شاید وہ اگلے سردیوں میں میرا نہ ہو (کیونکہ وہ کبھی کبھی کہتی تھی
میری فیملی کے سامنے میری نہیں چلتی یعنی وہ کہیں بھی شادی کروادے تو میں
خاموشی سے ہاں کردوں گی ۔اور میں بے وقوف اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا
، میں سمجھتا تھا کہ وہ شادی کے لیے مجھے دھمکا رہی ہے جب کہ میں اُس
پوزیشن میں نہیں تھا کہ شادی کرسکو)۔
خیر ۔۔! جب میں نے اُس کی مجبوری سمجھی تو وہ میری محبت سمجھ گئی اور
دروازے تک آنے میں راضی ہوگئ۔
اُس وقت رات کے 2:30 بج رہتے اور (گوریچ )بلکل جوان تھی۔ میں اُس کی گھر کی
گلی میں انتظار کرتا ہوا فٹ پاری/چوکٹ، جیسے ہم بلوچی میں (ڈِکّی) کہتے ہیں
پہ بیٹھ گیا کہ کب وہ آئے گی۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگئی گلی کی بلب سے اُس کی ڈری ہوئی آنکھیں آج بھی
میرے ذہین پہ نقش ہیں اور وہ ڈارک سُرخ بلوچی دوچ جیسے وہ پہنی تھی کیا خوب
منظر تھا میں نے آج تک ایسا خوبصورت منظر نہیں دیکھا جو گِرے رنگ کے دروازے
پہ ڈارک سُرخ پہنی ایک حسین لڑکی رات کے آخری پہر میں میرے لیے کھڑی تھی۔
لیکن وہ جلد ہی چلی گئی ۔
اور میں بھی کپ کپاتا ہوا گھر پہنچ کر بستر پہ لیٹنے کے بعد اُس کو ایس ایم
ایس کیا کہ" بہت شکریہ" اور وہ کہنے لگی "دیکھ لیا نا اب سو جاو"
جب بھی ٹھنڈی راتیں آتی ہے تو وہ منظر میری دل کو چُو لیتی ہے ۔ اگرچہ اُس
کی شادی کسی اور سے ہوگئ لیکن مجھے یقین ہے اُسے آج بھی مجھ سے محبت ہے ۔
سرور درپشان
|