دو تاریخی مرض ’’ اندھا اعتماد اور سادہ دلی

جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہے ۔ عقل کی غذا عل اورتحقیق ہے ۔ جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جو دماغ علم اور تحقیق میں کمزور ہوتا ہے ۔ وہ شکست کھا جاتاہے ۔ نپولین بونا پارٹ1978؁ء میں جب قاتح کی حیثیت سے مصر کے مسلمان مملوکی بادشاہوں کو شکست دے کر مصر میں داخل ہوا تو اُس وقت اسلام اور مشرقی ممالک کے بارے میں جاننے والے غیر مسلم ماہرین کا ایک بڑا گرو ہ بھی اسکے ہمراہ تھا۔ جو قدم قدم پر اُس کی رہنمائی کر رہا تھا ۔

1۔ ان ماہرین نے نپو لین بونا پارٹ کو یہ سمجھایا کہ مصر کے لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ دین کے بارے میں بہت حساس ہیں ۔لہذا لوگوں کو یہ باور کر رہا جائے کہ ہم حملہ آور اسلام کی تعلیمات پرکامل یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو دین بشریت کی سعادت و خوش بختی کا باعث سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ نپولین مصر میں جہاں بھی تقریر کرتا تھاانہی نکات کو دہراتا تھا ۔ اُس نے مِصر میں پہلی انجمن شرق شناسی مصر کی بنیاد رکھی اور اہل مصر کو بہت کم فوج کے ساتھ قابو کرنے کیلئے نمازیں پڑھانے والے اماموں ، قافیوں ، مفتیوں اور مقامی علمائے کرام کیلئے وظائف مقرر کئے ۔بعض نے حکومت سے وظائف لینے سے انکار کیا تو انہیں یہ کہا گیاکہ آپ لوگ یہ رقم اپنے لئے استعمال نہ کریں بلکہ اسلام کی خدمت کیلئے صرف کریں ۔ اس نے مکمل پروٹو کول کے ساتھ جامعہ الازہرکے ساٹھ اساتذہ کرام کو فوجی چھاؤنی میں عربی سکھانے اور اسلامی معارف بیان کرنے کیلئے مامور کیا۔ تاکہ مشرقین دین اسلام کے عربی صتون پر اچھی طرح عبور حاصل کر پائیں ۔ نپولین کی یہ حکمت عملی اتنی کار گر ثابت ہو ئی کہ بہت جلد مسلمانوں نے اپنی اسلامی حکوت جانے کے غم کو فراموش کر دیا ۔ اور پورا مصر نپولین کے گن گانے لگا ۔ یہاں تک کہ آج بھی بعض سادہ دل مسلمان نپولین کوعاشقِ رسول ؐ اورعاشقِ امامِ حسین ؓ گھر دانتے ہیں۔ جب نپولین نے مصر کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے نائب کِلبر ( Kleber)کو یہ تاکید کی مستشرقین کے مشورے سے مصر کی مدیریت کی جائے ۔چونکہ اسکے علا وہ ہر طریقہ خرچے کا باعث اور احمقانہ تھا ۔

2۔ یہ طریقہ کار دنیا بھر کے حکمرانوں کو سمجھ آ چکا ہے اور وہ ایسے حربوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ عصرحاضر میں اس کی وافع مثال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کیلئے جو بین المذاہب دعائیہ تقریب کیپٹل ہل منعقدہوئی ۔ اس میں قرآن مجید کی تلا وت کی گئی اور اس کے علا وہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور نائب صدرمائیک پھینس کی واشنگٹن کے گر جا گھرمیں معقد ایک مذہبی تقریب کے دوران توجہ سے قرآن کریم کی تلا وت سننے کی ویڈیو بھی وائرل کی گئی ۔ تاکہ لوگوں کو خاص طور پر مسلمانوں اور عسائیوں کو پتہ چلے کہ ہم ان لوگوں اور اِنکے مذاہبوں سے کس قدر محبت رکھتے ہیں ۔ جب تلا وہ شروع ہوئی تو خاتونِ اول ملنیا ٹرمپ فائل اٹھانے لگیں تو اس دوران ٹرمپ انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتے بھی نظر آئے ۔

3۔ْ اس کے علا وہ امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کی ریاض کانفرنس کے موقع پر کی گئی یہ تقریر بھی انٹر نیٹ پر آپ لوڈ کی گئی جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ اسلام دنیا کا بہترین مذۃب اور امن پسند دین ہے ۔‘‘
اس طریقہ کار کو غیر مسلم حکمرانوں کی طرح مسلم دنیا کے حکمران بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ سعودی حکومت کر رہی ہے ۔ کہ جہاں ایک طرف بین الاقوامی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے اور دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کی اذادی کیلئے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔یہی کچھ ہمارے پاکستان میں بھی ہو رہاہے ۔ ضیا الحق نے امریکی تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر اسلام کے نام پر چند مدارس ، مولویوں اور مفتیوں کو خرید کرطالبان کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت بنا دیا اورایک طرف نظام مصطفی ؐ کا اعلان کر کے ہمارے مذہبی حلقوں کو خوش کرتا رہا اور دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرتا رہا۔

اسی طرح آج بھی ہمارے ملک پاکستا ن میں عوام کے دینی جذبات کو اُبھار کر مختلف لوگ اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ آئے روز شر پسند عناصر توہین رسالت اورعشقِ نبوتؐ کے نام پر لوگوں کو بغاوت کر کے اُکساتے ہیں ۔ چونکہ چالاک اور مکار لوگوں کو ہماری اس کمزوری کاعلم ہے ۔ کہ ہم لوگ مذہبی معاملات میں بہت جذباتی ہیں ۔ چالاک و مکارلوگوں کی تقریروں سے مشتعل ہو کر سادہ دل لوگ ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ عشق نبوتؐ کے نام پر کیا جاتا ہے اور بعد ازاں دوسری طرف حکومت بھی باغیوں کوکچلنے کی بجائے نمازیں پڑھنے والے اماموں ، فافیوں ،پیروں، مفتیوں اورمولویوں کو خرید کر سارے معاملے پر مٹی ڈال دیتی ہے ۔ یوں دین دوستی کے نام پر حکومت کا پہیہ بھی گر دش میں رہتا ہے اور باغی لوگ بھی مکمل آزادنہ گھومتے ہیں ض اب اگر زیر اعتاب کوئی آتا بھی ہے تو وہ بے چارہ قانون کے شکنجے میں پھنستا ہے ۔ جس نے مولویوں اور پیروں پرا ندھا اعتماد کرتے ہوئے آتشِ عشق میں بے خطر چھلانگ لگائی ہوتی ہے اور ذرا غور فرمائیں وہ مذۃب جو مسجد میں لہسن اورپیاز کھاکر جانے سے منع کرتا ہے کہ اس کی بدبو سے دوسروں کی دل آزاری ہوگی ۔ وہ مذہب جو راستے میں پتھر رکھنے سے منع کرتا ہے کہ کہیں کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو ۔ وہ مذہب جو حقوقِ انسانیت کو سب سے بڑھ کر روندا جاتاہے ،۔ غریبوں کا جینا دوبر کیاجاتا ہے ۔ توڑ پھوڑ کیاجاتا ہے اپنے بھائیوں کو اذیت دی جاتی ہے وہ مذہب جو پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع کرتاہے ۔ وہاں اُسی کے ماننے والے اُسی کے نام پر اسی کے بندوں کی ساری زندگی کی محنت چھین لیتے ہیں ۔ چلو مان بھی لیتے ہیں کہ احتجاج ہو نا چاہیے تھا مگر اگر یہ پر امن طریقے سے ہوتا تو بہتر نہ ہوتا ۔اگر یہ توڑپھوڑ کے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا ۔ اگر یہ غریب کا رزق چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا ۔ اگر یہ لوگوں کے منہ سے نوالے چھینے بغیر ہوتا تو بہتر نہ ہوتا ۔ اگر اپنے ملک کے حالات کا سوچ کر کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا ۔ ہم کوئی بھی کام درست طریقے سے کیوں نہیں کر سکتے ۔ ہم کس سمت جارہے ہیں ۔ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں ۔ کیا جن کو ماننے کے ہم دعوئے کرتے ہیں انکی مان بھی رہے ہیں یا بس زبان سے ہی دعوئے کرتے ہیں کیا ہمیں اس پر تھوڑی دیر کیلئے سوچنا نہیں چاہیے ۔۔؟ ہمارے مذہبی لیڈر ہوں یاسیاسی لیڈر سب کے پاس ایک ہی طریقہ ہے بات منوانے کااور وہ ہے توڑ پھوڑ کا اور اس میں نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہوتا ہے یا ملک کا ۔۔۔۔۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف کرے۔
جب تک لوگوں کی شعوری سطح بلند نہیں کی جاتی اور انکی سادہ دلی کے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا تب تک ہمارے ہاں اسلام کے نام پر مفتی ، مُلا ، طالبان بنتے رہیں گے ۔ خود کش حملے ہوتے رہیں گے اور ملکی وقومی املاک جلتی رہیں گی ۔ ہمیں عاشقانِ رسولؐ کویہ سمجھانا ہوگا کہ جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں ۔عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے جب عقلیں آپس میں ٹکراتی تو جو دماغ علم اورتحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھا جاتا ہے ۔
 

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 31 Articles with 21417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.