دوستوں کہتے ہیں کہ جو انسان دن کو سوچتا ہے وہی رات کو
اسکے خواب میں آجاتا ہے آج مولانا صاحب کے ایک خواب کی تفصیل بھی آپ کو
بتاؤنگا مگر اس سے پہلے ضروری ہے چند حقیقتوں سے بھی پرداہ اٹھایا جائے کہ
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے ایک بات واضح ہے ملکی دولت لوٹنے والوں
کو فائدہ پہنچایا جائے اور خاس کر انکو جن کی تصویریں انہوں نے اپنے کنٹینر
پر لگا رکھی ہیں میں آزادی مارچ کے خلاف نہیں ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ جس
جس نے بھیس بدل بدل کر ہمیں لوٹا ہم انہیں کسی صورت معاف نہیں کرینگے
کیونکہ انہی لٹیروں،ٹھگوں اور ڈاکوؤں کی وجہ سے آج ملک میں بڑھتی ہوئی
مہنگائی اور غربت نے عام انسان کا جینا مشکل کررکھا ہے میں ہر پاکستانی سے
اپیل کرونگا کہ وہ پشاور سے کراچی تک آزادی مارچ کو کامیاب کروانے کے لیے
گلی گلی میں دھرنہ دیں مگر مولانا فضل الرحمان سے میری صرف ایک درخواست ہے
کہ وہ جب کنٹینر پر خطاب کے لیے آئیں تو باوضو ہو کر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ
کے قسم اٹھائیں کہ جے یو آئی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کرپشن نہیں
اور آج کی یہ مہنگائی اور غربت کے یہی سب ذمہ دار نہیں ہیں تو پوری قوم
انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر وزیراعظم سے استعفی مانگنے سڑکوں پر ہوگی
اور جن کے لیے مولانا صاحب نے یہ ساری محنت کی وہ بھی انکا ساتھ چھوڑ رہے
ہیں شائد انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے سیاسی بساط پر
زبردست چال چلی ہے کیونکہ آصف علی زرداری جیل میں ہیں اور نواز شریف ہسپتال
میں تو کیوں نا میں لیڈر بن جا وں اور جو بہت کائیاں سیاست دان مولانا کے
ساتھ کھڑے تو ہو گئے مگر بعد میں انہیں احساس ہوا کہ یہ تو گڑبڑ ہو گئی ہے
جس پر بلاول بھٹو زرداری کو احساس ہوا کہ میں تو انتہائی بائیں بازو کی
جماعت سے تعلق رکھتا ہوں مولانا کے پیچھے کھڑے ہونے سے تو میرا اصلی چہر
سامنے آ جائے گا اور دوسری جانب اس مارچ سے شریف خاندان کے اختلافات کھل کر
سامنے آ گئے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے کچھ مجبوریوں کے تحت
ایک دوسرے کو برداشت کیا ہوا تھا مگر اب انکی اولادیں ایک دوسرے کے مخالف
ہیں اور ڈیل کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ہاں تو میں بات کررہا تھا
آزادی مارچ کی اور اسکے کردھرتا جناب مولانا فضل الرحمان کو ہر دور میں
اقتدار میں رہنے کی عادت رہی ہے اس لیے وہ یہ مارچ کر رہے ہیں، انہیں اصل
غم منسٹرز انکلیو اور اقتدار سے دوری کا ہے اور اب تقریبا 35 برس بعد
مولانا صاحب کو اقتدار سے دور ہونا پڑاجو مولانا صاحب کی برداشت سے باہر ہے
اور اسی رنج میں انہوں نے آزادی مارچ شروع کردیا جبکہ کرپشن کیسز میں بند
قومی مجرمان کا بھی خیال تھا کہ مولانا صاحب کے مارچ کے بعد انہیں بھی
آزادی مل جائیگی اور اس سلسلہ میں بھاری سرمایہ کاری بھی کردی گئی اور
مولانا صاحب نے ایک ٹکٹ میں ڈبل شو کروا کر ایک تیر سے دو شکار بھی کرلیے
اب بے شک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا کے کنٹینر پر نہیں آئے گی مگر
پیچھے سے وہ اپنی مکمل سپورٹ جاری رکھیں گے اب مولانا صاحب کے خواب کے مزے
لیتے ہیں مولانا فضل الرحمن صاحب نے رات گئے اپنے جوش خطابت میں وزیراعظم
ہاؤس سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی تو کچھ ہی لمحات کے بعد ایک
خصوصی ہیلی کاپٹر مولانا کے کنٹینر سے تھوڑی دور لینڈ ہوا اگلے پندرہ منٹ
کے اندر مولانا فضل الرحمان صاحب ہیلی کاپٹر میں تشریف فرما ہوگئے جنہیں
وہاں سے ایوان صدر لایا گیا اور اس وقت وہاں پرصدر پاکستان ، وزیراعظم
عمران خان، تمام مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی اور مولانا
طارق جمیل صاحب پہلے سے موجود تھے مولاناصاحب ان سب کو دیکھ کر سمجھ گئے
وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکی کام کرگئی ہے
اور اب فائنل مذاکرات ہونے جارہے ہیں آرمی چیف جنرل باجوہ نے مولانا سے کہا
کہ کیا آپ اپنی شرائط میں لچک پیدا کرسکتے ہیں؟ مولانا نے انکار میں سر ہلا
دیا آرمی چیف نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا عمران خان کو فیس سیونگ کیلئے چھ
ماہ کی مہلت دے سکتے ہیں؟ ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ اگلے سال اپریل میں استعفی
لے لیا جائے گامولانا نے ایک مرتبہ پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ آرمی چیف نے
آخری سوال کیا کہ کیا عمران خان کے استعفے کے بعدفواد چوہدری کو وزیراعظم
بنایا جاسکتا ہے؟ مولانا نے ایک مرتبہ پھر انکار کردیا اور مضبوط لہجے میں
کہا صرف استعفی نہیں بلکہ ہم تمام اسمبلیوں کی برطرفی اور فوری نئے الیکشن
چاہتے ہیں اس سے کم پر بات نہیں ہوسکتی۔ یہ سن کر آرمی چیف نے بے بسی سے
عمران خان کی طرف دیکھا اور سر کے اشارے سے کچھ کہا۔ عمران خان یہ سب کچھ
چپ چاپ دیکھ رہا تھا، آرمی چیف کے اشارہ کرنے پر اس نے اپنی جیب سے ایک تہہ
کیا ہوا کاغذ نکالا اور چپ چاپ مولانا کے حوالے کردیا۔ مولانا نے وہ خٖط
پڑھا تو اس میں قومی اسمبلی توڑنے کا حکم دیا گیا تھا اور ساتھ ہی عمران
خان کا استعفی بھی تھا۔ مولانا نے وہ کاغذ پڑھ کر اطمینان سے سر ہلایا اور
قریب میز پر رکھا پانی کا گلاس پینے لگ گئے۔ پانے پیتے پیتے اچانک انہیں
کھانسی شروع ہوگئی جس سے پانی چھلک کر ان کے کپڑوں پر جا گرا اور کپڑے گیلے
ہوگئے۔ اسی دوران مولانا کی آنکھ کھل گئی اور خواب کی دنیا سے باہر نکل آئے
دیکھا تو وہ کینٹینرکا خواب تھاجبکہ انکی دھمکی کو گذرے ہوئے 48گھنٹے تو
کیا اسکے اگلے 48گھنٹے بھی گذر چکے تھے اور شہباز شریف اور بلاول بھی ساتھ
چھوڑ گئے مولانا صاحب اپنے کنٹینر میں بلکل اکیلے تھے جیسے وہ آزادی مارچ
میں تنہا رہ گئے ہیں اور پھر مولانا صاحب اپنے ٹوٹے ہوئے خواب کے سرے جوڑنے
میں مصروف ہوگئے قارئین یہ ایک فرضی خواب تھا اسے حقیقت مت سمجھ لینا ۔
|