پاکستان اﷲ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑی نعمت
ہے،اس کی حفاظت،ترقی واستحکام ،دنیا بھر میں اس کی نیک نامی اور اچھی شہرت
کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنا ہم سب کی بنیا د ی ذمہ داری ہے، اس کی
بقاء میں ہم سب کی بقا ہے،اس کے استحکام میں ہم سب کا استحکام ہے۔اس کی عزت
اور نیک نامی میں ہم سب کی عزت اور نیک نامی ہے، یہ وطن ہماری پہچان ہے،
ہماراگھر،ہمارا سکون،ہماری محبتوں اور عقیدتوں کا محو ر ومرکز ہے۔
ہمار ا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مثبت کے بجائے ہمیشہ منفی رویوں کو اپنایا
اور اجاگر کیا جاتا ہے۔ذاتی مفاد کے لیے قومی اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال
دیا جاتا ہے، سستی شہرت کے حصول کے لیے کسی کی عزت نفس مجروح ہورہی ہو تو
بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، قوم کی عزت خاک میں مل رہی ہو تو بھی کوئی بات
نہیں، جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے ان رویوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے،ویور شپ
بڑھانے کے لیے غیرمنطقی باتیں،بے تکی گفتگو،بوگس تجزیے اور تبصرے ہمارے
میڈیا کا معیار بن کر رہ گئے ہیں۔ویب پیجز پر ٹریفک بڑھانے اور زیادہ سے
زیادہ لائیک حاصل کرنے کے چکر میں جھوٹ اور غلط بیانی پر ساری عمارت کھڑی
کی جاتی ہے، سنسنی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔چھوٹی
چھوٹی باتوں کو ہوا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سیاسی مخالفت میں ہم کسی بھی
حد تک جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں،بدزبانی،بدکلامی،گالم گلوچ تو بہت چھوٹی
چیزیں ہیں اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیں پار کر لی جاتی ہیں.
ماضی قریب میں ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں میں جن میں جھوٹے پروپیگنڈے کی
بنیاد پر کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،قومی سلامتی داؤ پر لگی ……عالمی سطح
پر ملک کی بدنامی ہوئی،ہمار ا امیج خراب ہوا۔المیہ یہ ہے کہ یہ رویے صرف
عوام الناس یا جھوٹی سطح تک محد ود نہیں بلکہ اہم عہدوں پر فائز ذمہ دار
لوگ بھی بسا اوقات ایسی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں
کہ حیرت ہوتی ہے۔بے بنیاد اطلاعات پر طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے ،غیر مستند
چیزوں کو اچھالا جاتا ہے ،مفروضوں کی بنیاد پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور
فریق مخالف کی عزت کو خاک میں ملادیا جاتا ہے ۔
ہمارے ہاں ایک محاورہ مشہور ہے کہ اپنا پیٹ کسی کو نہیں دکھایا جاتا، اسی
طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گھر کی باتیں گھر میں رہنی چاہییں۔اپنے گھر اور
ذات کے حوالے سے تو ہمار امعاشرے میں یہی طرز عمل ہوتا ہے مگر اپنے وطن کے
بارے میں ہمارا یہ رویہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔کاش اپنے وطن اور ملک کو بھی
ہم اپنا گھر سمجھنا شروع کر دیں اور اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں،چند
مثالیں ملاحظہ کیجئیے ۔
زیادہ دور نہیں جاتے حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کی رضا کار تنظیم انصار
الاسلام کو سیاسی مخاصمت میں جس طرح دہشت گرد تنظیم باور کرانے کی کوشش کی
گئی وہ آپ حضرات کے سامنے ہی ہے۔ایک ایسا نظم جو سالوں سے ہے اور ان کے
ہاتھ میں ڈنڈے بھی آج کی بات نہیں مگر جب تک مزاج یار میں ہے تو سب ٹھیک
اور جب مزاج یار میں نہ آئے تو یہی ڈنڈے تلواروں کا روپ دھار لیتے
ہیں۔آزادی مارچ میں ایک آدھ سفید کلمہ طیبہ والا جھنڈا نظر آنے پر طوفان
کھڑا کرنے والے خود ہی کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف میں ہمارا مقدمہ کمزور
ہوگیا،ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کہیں کسی کی طرف سے جانے انجانے میں کسی
کمزوری اور بے احتیاطی کا مظاہرہ بھی کیا جائے تو میڈیا پہ ڈھنڈورا پیٹنے
کے بجائے گھر کے مسئلے کی طرح اسی باہمی افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے
،مگر کیا کریں ہمارا مقصد مسئلے کا حل تو ہوتا نہیں دوسرے کو نیچا دکھانا
ہوتا ہے سو اس کیلئے ہر حربہ اختیار کرتے ہیں اور ہر حد تک جانے کے لئے
تیار ہو جاتے ہیں ۔
لال مسجد کا سانحہ ہمارے سامنے ہے کہ کیسے تصادم کی راہ ہموار کی
گئی،بلاتحقیق دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ لال مسجد میں غیر ملکی جنگجو
ہیں۔اتنا اسلحہ ہے، اتنے دہشت گرد ہیں لیکن آپریشن اور تصادم کے بعد کچھ نہ
نکلا اورجب اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تو یہی پروپیگنڈہ کرنے والے ماتم کرنے
لگے،اس کے باوجود ریاست کا اتنا بڑا نقصان کرانے والوں اور جھوٹا پروپیگنڈا
کرنا والوں کو کچھ نہ کہا گیا ، جس ویڈیو کی بنیاد پر سوات میں آپریشن کا
ماحول بنایا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ویڈیو فیک اور جعلی ہے، 2004 میں
علامہ عبدالرشید غازی شہید کی گاڑی سے اسلحہ برآمد گی کی خبر بریک ہوئی اور
اس وقت تین وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس کی، اسلحے کے جو مقدار بتائی گئی
وہ ایک مہران گاڑی میں سما ہی نہیں سکتی تھی۔اس کے باوجود اس جھوٹ کو سچ
باور کرانے کی کوشش کی گئی ،مسئلہ کشمیر پر کیسے ریاستی موقف کو نظر انداز
کیا جاتا ہے، ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے قومی پالیسی کے خلاف کیسے بے
بنیاد خبریں چلائی گئیں، اس طرح کے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں جن میں
خواہش کو خبر بنا کر چلایا جاتا ہے اور پھر ہم برسوں اس کے نتائج بھگتے
رہتے ہیں..
ہماری دانست میں جن لوگوں کو قومی سلامتی کا کوئی لحاظ نہیں، اپنے وطن کے
سافٹ امیج کی کوئی فکر نہیں، جو اپنی سیاسی لڑائی میں اس حد تک آگے چلے
جاتے ہیں کہ انہیں اپنے مد مقابل کی عزت نفس کا خیال رہتا ہے نہ روایتی
اقدار کا، جو پیالی میں طوفان کھڑا کرنا چاہتے ہیں وہ ریاست کے اصل دشمن
ہیں۔جو سستی شہرت کیلئے حساس معاملات کی حساسیت کا بھی خیال نہیں رکھتے،ان
کیلئے قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد مقدم ہے ،جو جھوٹ کو گناہ نہیں
سمجھتے،جو الزام تراشی کو پروفیشنلزم کا نام دیتے ہیں،جو قومی رازوں کو
افشا کرتے ہیں ریاست کے اصل دشمن وہ ہیں اور ایسے شرپسندوں پر نظر رکھنے کی
ضرورت ہے۔
اﷲ پاک ہمارے وطن عزیز کو ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ فرمائے...
|