ملکی سیاسی صورت حال جہاں ٹکراﺅ
کی جانب گامزن ہے وہیں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے بعض اقدام سے ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ آئندہ چند ماہ سیاسی حرارت میں مزید اضافہ ہوگا اور بعید نہیں
کہ اس کا نتیجہ ملک میں تبدیلی کی صورت میں سامنے آئے۔ بظاہر تو ایسا لگتا
ہے کہ حکومت نے بھی ہر سطح پر سیاسی جنگ کی مکمل تیاری کرلی ہے، پاکستان
پیپلز پارٹی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کیس پر نظر ثانی کے حوالے سے
صدارتی ریفرنس کو بھی حکومتی جوابی حملے کا ابتدائی مرحلہ قرار دیا جارہا
ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے صدارتی
ریفرنس قانون کے مطابق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن اس
ریفرنس کے اثرات ملکی سیاست پر گہرے ہوں گے، پاکستان پیپلزپارٹی اس ریفرنس
سے ہر دو صورت میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اگر ریفرنس کو تسلیم کرتے ہوئے
عدالت ذوالفقار علی بھٹو کیس کو چلاتی ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت
اس کو کیش کراتے ہوئے ایک مرتبہ پھر بھٹو کے نام کو نئے انتخابات کے لیے
استعمال کرنے کی کوشش کرے گی اور اگر ریفرنس پر کاروائی نہیں ہوتی یا اس کو
خلاف قانون قرار دیکر مسترد کیا جاتا ہے تو بھی پیپلزپارٹی اس سے بھر پور
فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اور بعید نہیں کہ اس حوالے سے عدالت کو بھی
نشانہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں دیدار علی شاہ کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر
سندھ میں پی پی پی کے بعض رہنماﺅں کی اپیل پر ہڑتال کو ابتدائی کاروائی
قرار دیا جارہا ہے۔ اس ہڑتال کے حوالے سے عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لے
لیا ہے ابتدائی پیشی یکم اپریل کو ہوئی اور مزید کاروائی 15 اپریل تک کے
لیے ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر پی پی پی سندھ کی قیادت
اور ارکان نے جس یکجہتی اور جذبات کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا
ہے کہ پی پی پی اب بھر پور جوابی حملے کی تیاری کررہی ہے۔ حکومت اور عدالت
کے تعلقات اور مستقبل میں سیاسی محرکات کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کیس
پر نظر ثانی کے صدارتی ریفرنس کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے بعض مبصرین
اس عمل کو پی پی پی کی جانب سے نئے انتخابات کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ بھی
قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2007ءکی ووٹر فہرستوں میں 8
کروڑ 12لاکھ 13ہزار 741 میں سے 3کروڑ 71لاکھ 85 ہزار 998 ووٹروں کے جعلی یا
غلط اندراج ہونے کے انکشاف نے 2008ءکے عام انتخابات اور اس کے نتیجے میں
قائم ہونے والی حکومتوں، اسمبلیوں اور اداروں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ فہرست کے مطابق تقریباً 46 فیصد
ووٹروں کا اندراج غلط ہے صرف 54 فیصد ووٹ کی تصدیق ہوسکی ہے۔ فہرست کے
مطابق 2008 ءکی ووٹر فہرست میں ایک کروڈ 50 لاکھ 28 ہزار 808 ووٹروں کا
شناختی کارڈ ہی نہیں بنا ہوا ہے۔ 21 لاکھ 40 ہزار 15 ووٹروں کا شناختی کارڈ
قابل استعمال ہی نہیں، 24لاکھ 91 ہزار 90 ووٹروں کا کمپیوٹرائزڈ شناختی
کارڈ ڈبل ہے اور 64 لاکھ 69 ہزار 310 ووٹروں کا سابق قومی شناختی کارڈ ڈبل
ہے اور ایک کروڑ 10 لاکھ 56 ہزار 775 ووٹروں کے سابق قومی شناختی کارڈ کی
نادرا ڈیٹا بیس سے تصدیق ہی نہیں ہوسکی۔تاہم 4کروڑ40لاکھ27ہزار743ووٹرز کے
درست ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس ووٹر فہرست کے حوالے سے عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے، راقم نے اس فہرست
کے حوالے سے 2007ءمیں ہی انہی صفحات میں حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ ووٹر
فہرست میں بڑے پیمانے پر غلط اندراج ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے
متعدد حلقوں میں یہ غلط اندراج اتنی بڑی تعداد میں ہے کہ یہاں پر فیصلوں کا
انحصار ہی ان ووٹوں پر ہے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت میں زیر سماعت یہ
مقدمہ بھی ملکی سیاست کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ اگر
عدالت ان ووٹروں کو فہرست سے نکالنے کا حکم دیتی اور پھر نئے انتخابات ہوتے
ہیں تو بعض جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی اور اس فہرست کو درست کیے
بغیر نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی ؟اور اگر
فہرستوں کو درست کرنے کا حکم دیا گیا تواس کے لیے کم از کم 6 ماہ سے ایک
سال کی مدت درکار ہوگی تاہم مجموعی طور پر امکان ہے کہ اس مقدمے کا نتیجہ
مثبت آئے گا اور کم از کم ووٹر فہرست سے غلط اندراج کا کسی حد تک خاتمہ ہو
سکے گا۔
46 فیصد سے زائد غلط ووٹروںکے اندراج کے انکشاف نے 5 اپریل 2011 سے شروع
ہونے والی مردم شماری کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ 5 اپریل 2011ءسے مردم شماری
کا مرحلہ شروع ہورہا ہے اور اگست یا ستمبر میں مردم شماری شروع ہوگی۔ کسی
بھی ریاست میں وسائل کی مناسب تقسیم کے حوالے سے مردم شماری انتہائی اہمیت
کی حامل ہوتی ہے ماضی میں پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و
شمار کو مختلف مراحل میں مشکوک قرار دیکر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے سندھ اور بلوچستان کافی حساس شمار ہوتے ہیں جبکہ اب صوبہ پنجاب
اور خیبر پختونخواہ میں بھی لسانی تعصبات کے حوالے سے مردم شماری کو کافی
اہمیت دی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اس اہم معاملے پر
سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تاکہ ملک کو ایک صاف اور شفاف قومی دستاویز نصیب
ہوسکے۔ ورنہ مردم شماری ملک میں مزید اختلافات اور تنازعات کا سبب بنے گی۔ |