مولانا فضل الرحمن صاحب نے ایک بار تو سب سیاسی اور مقتدر
قوتوں کو ڈرا دیا تھا۔لیکن جب دھرنا لپیٹا گیا تو مایوسی اسٹیج سے پنڈال تک
نمایاں تھی پھر نہ حامد میر صاحب نظر آئے جو طنزیہ انداز میں کہیں کہ "مولانا
ایسے نہیں جائے گا عمران خان!" نہ ھمارے مربی سلیم صافی صاحب کا ٹویٹ آیا
کہ شاباش جمعیت کے سپاہیو ڈٹے رہو! سلیم صافی اکثر کہتے ہیں کہ خدا کا شکر
ہے کہ ھم "تبدیلی" میں شامل نہیں تھے مگر کیا صافی صاحب اس دھرنے میں شامل
تھے ھمارا تو خیال ھے اچھے کام کی تعریف اور برے پر تنقید ضروری ہے یا کم
ازکم حال کا حالات اور ڈنڈا بردار "آ لات" دیکھ کر تجزیہ کرنا چاہیے۔ان کے
مولانا آرہا ہے کہ حامی مسلم لیگ ن۔پپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھی بھی
غائب پائے گئے بلکہ گول مٹول سرخ چہرے والا آفتاب بھی کہیں بادلوں میں گم
سم تھا مولانا کے ساتھ بس وہ توتھےجو جمعیت سے ھی ھارے اور ان کے ساتھ
دھاندلی آلاپ رہے تھے۔پنڈال آدھا خالی ھو چکا تھا انصار بچ گئے تھے
اورمہاجرین گھروں کو لوٹ چکےتھے اور کچھ لوٹ رہے تھے اگلے دن دھرنے کا پر
جوش عالم مجھے ملا تو فرمانے لگا کافی علماء اور طالب جا چکے ہیں۔ھم بھی
جارہے ہیں سردیوں کی مشکلات ہیں گھر میں بھی کچھ مسائل ھیں ھم تو ان لوگوں
کے مدارس کے ملازم ہیں اس لیے مجبور ھیں پھرعلماء نے طارق جمیل صاحب کو
نہیں بخشا تو بہت دکھ ہوا ہے۔مولانا نے پلان بی مایوسی کے عالم میں تیار
رکھا ھوا ھے۔ان کی باتیں سن کر مجھے بھی دکھ ھوا رہا تھا۔مولانا اکثر کہتے
رہے کہ ھمیں مذھبی کارڈ استعمال کرنے کا طعنہ دینے والے یاد رکھیں ھم آئین
اور قانون کی بالادستی کے لیے آئے ہیں لیکن دھرنا ختم ھونے سے پہلے مولانا
عطاء الرحمن صاحب فرما رہے تھے ھم پلان بی کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ھم نے
بڑی شاہراہوں کو روکنا ہے کیونکہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ھے انہوں
نے بھی یہودیوں اور دشمنوں کا راستہ روکا تھا یہ بات تو میں نہیں جانتا کہ
محسن انسانیت نے ایسا کیا ہے لیکن یہاں دشمن نہ کوئی یہودی ھے نہ نصرانی تو
کیا یہ معرکہ حق و باطل ھے؟ کیا اس کو مذھبی کارڈ نہیں کہیں گے؟ راہ حق میں
ایسی مشکالات مسلمانوں نے برداشت کیں ھیں یہ سب کیا کوئی کربلا سجا کر خیمے
لپیٹ لیتا ہے اور کوئی معرکہ حق کہہ کر خیموں سمیت پندرہ لاکھ کا مجمع لیکر
30 بسوں پر روانہ ھو جاتا ھے پھر لوگ مذہبی جماعتوں پر کیسے اعتبار کریں
کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
مولانا فضل الرحمان جب تسلسلء جمہوری اقتدار میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین
تھے تو صرف پانچ فروری کو میڈیا کی تلاش پر کہیں نظر آجاتے مگر پروٹوکول
اور سہولتیں سڑکوں پر دھوڑتی اور سرکاری گھروں میں چمکتی نظر آتی تھیں۔مگر
کشمیر اور مسئلہ دونوں غائب! اس مرتبہ کے پی کے عوام نے انہیں مسترد کر دیا
اور عمران خان کو چن لیا تو مولانا حسد کی آگ اور اپنی بقا کا سفر لیے
روانہ ہو گئے کراچی سے اسلام آباد تک ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا مگر مولانا کا
دل ٹوٹ گیا نہ کسی نے روکا نہ سڑکوں پر کنٹینر لگے۔گذشتہ دھرنوں میں موٹر
وے بند،شیلنگ ،گرفتاریاں،اموات سب کچھ تو تھا۔کے پی سے پنجاب داخلے پر کیا
ھوا تھا اگرچہ مولانا نے قانونی راستہ اختیار کیا مگر بڑی آسانی سے وہ
اسلام آباد پہنچ گئے اور پہلے دو دن تو خوب گرجے بھی اور سب کو ڈرا بھی دیا
اگر اس موقع پر وہ دھرنا ختم کرتے تو ایک عزت سمیٹ لیتے مگر پلان بی نے
کشمیر ھائی وے خالی کروا دی۔کشمیر کمیٹی کی چئیرمن شپ سے ،کشمیر ھائی وے تک
مولانا نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کا اعتبار تو
مکمل کھو دیا البتہ ھم بھی ھیں! کی سیاست میں ایک اشارہ دے کر اپنا حصہ
وصول کرنے کے امیدوار بن گئے ھیں حکومت وقت نے بھی اچھی سیاست کو رواج دےکر
ایک نئی روایت قائم کر دی۔دھرنے پر میاں نواز شریف کی صحت کے اثرات بھی
پڑھے کیوں کہ میڈیا اس طرف متوجہ ھوگیا سب سے افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ تین
افراد سردی اور بیماری سے دم توڑ گئے اس کا بار موت کس پر ھو گا! دوسرا دکھ
دہ پہلو مذہبی کارڈ ھے جو عالم دین ھوتے ھوئےذاتی مقاصد اور غلط تشریح کے
ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔اب پلان بی کس حد تک حکومت کے لیے مشکل پیدا کر
سکتا ہے یہ دیکھنا باقی ھے۔دھرنے کے مطالبات نے بھی اسے بے اثر کر دیا تھا
کیونکہ استعفیاورٰ نئے الیکشن پر عوام تب ھی کان دھریں گے جب وہ متبادل حل
کا خاکہ دیکھیں گے۔اپ معیشت بہتر بنانے اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے کیا
کریں گے یہ سوال عوام کے لیے اھم ھے۔مولانا کے کندھے پر بندوق رکھ کر
فائرنگ کرنے والے بھی اب اور پس منظر میں چلے جائیں گے۔یہی سفر کشمیر کمیٹی
سے کشمیر ھائی وے پر مکمل ھوا خیمے اکھڑ گئے اور امام پلٹ گیا ۔
|