عدالت میں سیاست اور سیاست میں شقاوت

بابری مسجد سے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے ہر موقف کی تائید اس لیے ظاہر ہے اسے ہندووں کی تردید بھی کرنی پڑی مثلاً مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ مسجد کے اندر مورتیاں رکھنا غیر قانونی حرکت تھی ۔ مسجد کو ڈھا دینا غیر آئینی جرم تھا ۔ بابری مسجد کے علاوہ (کہ جس کا مقدمہ زیر سماعت تھا ) ملک کی ساری عبات گاہیں ۱۹۴۷؁ کی حالت میں رہیں گی اور ان کی حیثیت کو نہیں بدلا جائے گا یعنی کاشی ، متھرا اور دیگر تنازعات کو ہوا نہیں دی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم فریق کی ساری باتیں مان لینے کے بعد عدالت نے وہ کردیا جو ہندو فریق چاہتا تھا ۔یعنی تمام آثار و شواہد یا منطق ودلائل اپنی جگہ لیکن پرنالہ وہی گرے گا ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا سے لے کر حالیہ چیف جسٹس رنجن گگوئی بار بار یقین دلاتے رہے کہ اس مقدمہ کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ فیصلہ خطۂ اراضی کی ملکیت پر شواہد کی بنیاد پر ہوگا لیکن وہی ڈھاک تین پات کہ فیصلہ آستھا کے مطابق کردیا گیا۔

بابری مسجد کے قضیہ میں مسلم فریق کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے عدم اطمینانی کو مقدمہ میں ناکامی پر مہمول کیا جاسکتا ہے لیکن گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی نہ تو مسلمان ہیں اور نہ فریق اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب انصاف نہیں یہ سب سیاست ہے‘تو اسے کس زمرے میں ڈالا جائے ؟ اس فیصلے اندر پائے جانے والے تضادات کی مثال انہوں نے اس طرح دی کہ’اگر مہاتما گاندھی قتل کے معاملے بھی میں آج فیصلہ آتا تو گوڈسے قاتل لیکن دیش بھکت ثابت ہو تے‘۔ اس فیصلے کے بعد جسٹس رنجن گگوئی وہ سارے پندو نصائح ان کا پیچھا کریں گے جو وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں ۔ مجبور فلم میں آنند بخشی نے لکھا تھا ’’آدمی جو کہتا ہے ، آدمی جو سنتا ہے ، زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں ‘‘۔ یہ حسن اتفاق ہے اس فلم کا نام جسٹس رنجن گگوئی پر من و عن چسپاں ہوگیا ۔

یہ کسی ایک جماعت کی حکومت کا معاملہ نہیں بلکہ اس نظامِ جمہوریت کا جبر ہے جو حکمرانوں کو عوام کی مرضی تابع کرتا ہے اور وہ اپنی طاقت کے خمار میں عدلیہ کو اپنا گرمانبردار بنالیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر حکمراں عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (یعنی انتخابی کامیابی کی خاطر) ظلم و استبداد کا بازار بھی گرم کرے تو عدلیہ سے اس کا جواز فراہم کرنے پر مجبورہو جاتا ہے۔ فسطائیت کو جمہوریت کا حریف سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دونوں حلیف ہیں برے وقت میں ایک دوسرے کے بہت کام آتے ہیں ۔ تین ماہ قبل سی بی آئی نے ۱۸ ویں ڈی پی کوہلی یادگاری خطبہ کے لیے جسٹس رنجن گگوئی کو دعوت دی تو انہوں نے کھری کھری سناتے ہوئے سوال کیا ’’ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کسی معاملے کا کوئی سیاسی رنگ نہیں ہوتا ۔ تب سی بی آئی اچھا کام کرتی ہے۔ آج ساری دنیا کے حق پسند جسٹس گگوئی سے یہی سوال کررہے ہیں ۔ جاتے جاتے رنجن گگوئی نے اپنے سارےزندگی کے کیے کرائے پر پانی پھیر گئے۔

ایجنسی کی کمیوں اور اختیارات پر بات کرتے ہوئے انہوں کہا تھا ’یہ سچ ہے کہ کئی ہائی پروفائل اور حساس معاملوں میں ایجنسی عدالتی جانچ کے معیارات کو پورا نہیں کرپائی ہے‘۔ ان کا یہ تبصرہ بابری مسجد کے فیصلے پر بھی صادق آتا ہے کہ عدالت انصاف کےتقاضوں پر پورا اترنے سے قاصر رہی۔ جسٹس گگوئی نے فرمایا تھا ’’یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ اس طرح کی خامیاں ممکنہ طور پر کبھی کبھار نہیں ہوتیں‘‘۔اتفاق سے یہ تبصرہ بھی عدلیہ پر صادق آتا ہے کیونکہ اس سے قبل افضل گرو کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا ’’اگرچہ افضل گرو کے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگرہندوستانی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات (ضمیر) کی تسکین کے لیے انھیں پھانسی دینا ضروری ہے ‘‘۔اس سے ثابت ہوا کہ وطن عزیز میں بلا ٹھوس ثبوت کے کسی کو تختۂ دار تک پہنچا دینا ’مودی کے بغیر بھی ممکن ہے‘۔
 
جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے خطبے میں اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے مسائل سسٹم کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور ادارہ جاتی توقعات ، تنظیمی ساخت، کام کاج کی تہذیب اور حکمراں سیاست سے ہم آہنگی کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔بدوسمتی سے جسٹس گگوئی نے جن چار کمیوں کا ذکر کیا وہ سب کی سب عدلیہ میں بھی بدجہ اتم موجود ہیں۔ ان میں سے چوتھا نکتہ ’حکمراں سیاست سے ہم آہنگی‘ دراصل سارے فساد کی جڑ ہے۔ اس کمی کو دورکرنے کا نتیجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تشار گاندھی انصاف کے بجائے سیاست کہنے پر مجبور ہوئے ہیں اور انہیں یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ مبادہ ان کے پڑدادا کے قاتل کو عدلیہ دیش بھکت نہ قرار دے ڈالے۔ جسٹس رنجن گگوئی کے خطاب کے اندر اس کا اشارہ ایک سوال کی صورت نمودار ہوتا ہے وہ پوچھتے ہیں ’’ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کسی معاملے کا کوئی سیاسی رنگ نہیں ہوتا ، تب سی بی آئی اچھا کام کرتی ہے؟ اس کے برعکس حالت کی وجہ سے ونیت کمار بنام ہندوستان یونین معاملہ سامنے آیا ، جس میں عدالت عظمیٰ نے ایجنسی کو حق پرستی کی حفاظت کرنے کے لیےواضح ہدایت طے کیے‘ ۔ سی بی آئی کے لیے تو سپریم کورٹ نے واضح ہدایت دے دیں لیکن عدلیہ کو کون دے گا ؟

بابری مسجد کے معاملے میں عدالت نے کمال سعادتمندی سے درکار دربار کی تعمیل کی ۔ ڈی پی کوہلی توسیعی خطاب کے موقع پر جسٹس گگوئی نے ایک عملی مشورہ یہ دیا تھا کہ سی بی آئی کو کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (کیگ) کے مانند آئینی درجہ دیا جانا چاہیے تاکہ ایجنسی کو حکومت کے ’انتظامی کنٹرول‘ سے پوری طرح ’الگ‘ کیا جاسکے ۔ یہ نہایت معقول مشورہ ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا کیونکہ صفحۂ قرطاس پر تو عدلیہ کو آئینہ درجہ حاصل ہے اور وہ حکومت کے انتظامی کنٹرول سے آزاد ہے اس کے باوجود سرکاری خوشنودی کے لیے تضادات سے پرُ فیصلے صادر ہوتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر سی بی آئی کے ڈائرکٹر رشی کمار شکلا نے کہا تھا ایجنسی کو حکومت ، عدلیہ اور عوام کا اعتماد حاصل ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاعدلیہ کو عوام کا اعتماد حاصل ہے؟ اس فیصلے نے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

اس فیصلے نے عوام تو دور منصفین تک کو شکوک و شبہات کا شکار کردیا ہے اس لیے سبکدوش جسٹس اشوک کمار گنگولی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’فیصلے اس طرح ہوں گے تو نہ جانے کتنے مندر، مسجد اور چرچ توڑنے پڑیں گے‘‘۔ انہوں نے اپنے بیان میں مسلمانوں کے دل کی بات کہہ دی ۔ وہ بولے ، ’’اس فیصلے کے بعد ایک مسلمان کیا سوچے گا؟ وہاں برسوں سے ایک مسجد تھی جسے منہدم کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے وہاں ایک مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت اس بنیاد پر دی گئی کہ یہ زمین رام لالہ کے ساتھ منسلک ہے‘‘۔ جسٹس گنگولی نے مذکورہ فیصلے کے خلاف کئی سوال اٹھائے مثلاً صدیوں پہلے زمین پر کس کا مالکانہ حق تھا، اس کا فیصلہ کیا سپریم کورٹ کرے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ (اس حقیقت کو ) بھول جائے گی کہ جب آئین وجود میں آیا تو وہاں پر مسجد موجود تھی؟ ‘‘۔عدالت عظمیٰ کو اس کی محدودیت اور ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے جسٹس گنگولی نے فرمایا ’’آئین میں جو دفعات موجود ہیں اوران کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔یہ فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔‘‘

تقریباً دوسال قبل جب آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالتِ اعظمیٰ کے جسٹس چلامیشور ،جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کورین جوزف نےپریس کانفرنس بلا کر سپریم کورٹ کی غیر جانبدارانہ پالیسی پر سوال اٹھائے تھے توکچھ لوگوں نے اسے عدالت کے تقدس کو نقصان پہنچا نے والی حرکت قرار دے کر تنقید کی تھی ۔ بہت سارے لوگوں نے اِسدلیرانہ اقدام کو سراہا بھی تھاکیونکہ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے منصفوں نے عدالت کا وقار بحال کرنے کے لیے بولنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس وقت یہ بات دنیا کے سامنے آ گئی تھی کہ عدالتِ اعظمیٰ نقائص سے پاک نہیں ہے اور اب ثابت ہوگیا۔ جسٹس جے چلامیشور نے اس وقت کہا تھا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارہ نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی ‘۔ بابری مسجد سے متعلق فیصلے کے ذریعہ عدالت نے جمہوریت میں فسطائیت کاامرت گھول کر اسے امر کردیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں نہیں چاہتا کہ 20 سال بعد اس ملک میں ایک سوج بوجھ رکھنے والا شخص کہے کہ جے چلامیشور، رنجن گگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا۔‘کیا ان چار میں سے اب ایک نام ہذف کرنے کا وقت آگیا ہے؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.