تکبر بھری طرزِ حکمرانی کے نتائج․․․!

وطن عزیز میں عوام کی بے کسی اور بے بسی عیاں ہے،اقتدار کے پجاریوں نے دہائیوں سے غریب عوام کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے،انہیں سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیا گیا،یہی وجہ ہے کہ عوام اس صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے بنیادی وجوہات پر غور نہیں کر پا رہے ہے۔

کسی بھی ملک پر دو طرح سے حکومتی نظام رائج کیا جاتا ہے ۔ایک ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت یعنی جبر و ظلم سے ایک شخص کی حکمرانی کرنے کا نظام اور دوسرا جمہوری نظام یعنی عوامی نمائندوں کے ذریعے ہر معاملے کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کا نظام حکومت ہے۔اگر دونوں نظاموں میں کسی پر ان کے بنیادی رموزاور قوائد وقوانین کے مطابق چلاجائے تو کامیابی ممکن ہے ،لیکن اگر ڈکٹیٹرشپ یا بادشاہت کو جمہوریت کی طرح اور جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ کی طرح چلایا جائے تو حکومت کی ناکامی یقینی ہوتی ہے۔پاکستان کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں ڈکٹیٹر شپ کو جمہوری انداز اور جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ انداز میں چلانے کی کوشش کی جا تی ہے ۔جس کا بال آخر انجام انتشار اور بد امنی کی صورت میں نکلتا ہے ۔

موجودہ حکومت اور ان کی قیادت بہ ظاہر جمہوری نظام کے تحت اقتدار میں لائی گئی ہے ،مگر حقیقت میں اقتدار ڈکٹیٹر شپ کے تحت ہوا ۔یہی وجہ بنی ہے کہ وزیر اعظم کی ذہنیت اور اندازِ حکمرانی بادشاہت اور ڈکٹیٹروں والا ہے ۔وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں ۔عمران خان نے بار بار چین ،امریکہ اور دیگر بیرونی دوروں پر بیانات دیئے ہیں کہ اگر پانچ سو افراد کو اڑا دیا جائے تو ملک میں ریل پیل ہو جائے گی وغیرہ۔یعنی سعودی اور چین کے ماڈل کی بات کرتے ہیں۔سیاسی مخالفین کے ساتھ عمران خان اور ان کے وزراء کا غیر انسانی اور مجرمانہ رویہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔انسانیت اور احساس نام کی کوئی بات نظر نہیں آ رہی ۔حکمرانوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کسی کی جان جائے ،انہیں اقتدار کے نشے میں اٹھکیلیاں کرنا ہیں ۔میڈیا پر پابندی ہو یاکسی قسم کی سیاسی موومنٹ ہر طرح کی قدغن لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ قوم شدید کرب کی کیفیت سے گزر رہے ہے،مگر کیا مجال حکمرانوں کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ہر معاملے کو اَنا کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے ،رہبر اور محافظ خود رہزن بن چکے ہیں۔غلط اوقات پر اپنی بے محابا خواہشات کی تکمیل کرنے کی وجہ سے پیچیدہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔حالاں کہ ملک ان گنت چیلنجز کا شکار ہے ،لیکن مجال ہے کسی کو ملکی بقا اور سلامتی کی جنگ کی طرف توجہ ہو،انہیں تو مسئلہ ہے کہ میاں نواز شریف کو تکلیف کیسے دینی ہے ۔ان کی جان جاتی ہے تو جائے بیرونِ ملک علاج کروانے نہیں جانے دینا۔ان کی تذلیل کر کے انہیں بھیجنا ہے ،یہ نواز شریف کو بلیک میل صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کیوں کہ حکمرانوں کا قلب کی تسکین اسی عمل سے ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ تنگ اور مجبور کیا جائے ۔اختیارات کے نشے میں دھت لوگ زمینی حقائق سے جان بوجھ کر نظریں چرا رہے ہیں۔اداروں نے بھی حکومت کو بھر پور ساتھ دیا۔جس کی ایک مثال پچھلے دنوں نیب نے میاں نواز شریف سے نا انصافی اور بے رحمی پر مبنی رویہ اپنایا،جب وہ ایک شدید علالت میں ایک ایسے مقدمے کی سزا کاٹ رہے تھے جس کا فیصلہ جج ارشد ملک نے کیا تھا،یہ وہ جج ہے،جسے عدلیہ نے اپنے اوپر داغ کہا ہے۔نیب کے اہل کارمیاں نواز شریف کو ایک اور مقدمے میں تفتیش کے نام پر لاہور ہیڈ کوارٹر لے آئے، انہیں صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا۔پھر چند ہفتوں کے بعد ہی میاں نواز شریف کی صحت اتنی بگڑ گئی کہ انہیں سروسزہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

اب میاں نواز شریف کی بیماری پر خوب سیاست کی جا رہی ہے۔پہلے عمران خان کو یقین ہی نہیں تھا انہوں نے شوکت خانم اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کو بھیج کر تحقیق کی کہ واقعی میاں نواز شریف انتہائی بیمار ہیں۔پہلے پہل ہاتھ پاؤں پھول گئے ،اپنے بیان اور ٹیوٹر پر لکھ دیا کہ صحت پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے اور اپنے وزراء کو بھی میاں صاحب کی صحت کے بارے میں بیان بازی سے اجتناب کا حکم صادر فرمایا ،مگر ان کے کم عقل وزراء کہاں کسی کی سنتے ہیں ،جیسا قائد ہو گا ویسے ہی ساتھی بھی ہوں گے ۔جہاں عمران خان کو میاں نواز شریف کی سینئر لیڈر اورتین بار کے سابق وزیر اعظم کی تیمار داری کا مشورہ دینا چاہیے تھا وہاں ان سے ایسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی شرائط رکھوا دیں،جسے ماننا میاں نواز شریف کے لئے ممکن ہی نہیں ہے ۔یہ دوست نما دشمنوں نے عمران خان پر کلنک کا ٹیکہ لگوانا تھا ،لگوا دیا۔کیوں کہ اگر یو ٹرن کے ماسٹر نے اپنا ارادہ بدل بھی لیا پھر بھی بہ قول چوہدری شجاعت کے ’’مینگنیاں‘‘ تو ڈال ہی دیں ہیں۔حکومت کے اس بے رحم اور سفاک طرز عمل نے حکمرانوں کی ذہنیت سامنے کھول کر رکھ دی ہے ۔

اقتدار بھی کیا چیز ہے۔انسان اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔وہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ زندگی اور موت اس کے قبضہ قدرت میں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ظالموں کو اﷲ تعالٰی کبھی ہدایت نہیں دیتا ۔ہر فرد جانتا اور سمجھ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی بیماری میں کوئی ابہام نہیں لیکن پھر بھی تاخیری حربے اختیار کرنا ،بیماری کا تمسخر اڑانا ،یہ اقتدار کے تکبر کے علاوہ بھی کچھ ہے۔وزراء جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں،ان کا ایک مؤقف ہے کہ میاں نواز شریف قیدی ہیں دوسرے قیدیوں کو ایسی سہولت نہیں دی جاتی اس لئے انہیں بھی نہیں دی جائے۔یہ سیاست میں بڑا دھوکہ ایجاد کیا گیا ہے۔ایسی مساوات زمانے میں کبھی بھی نہیں رہی ہے۔اگر ایسی مساوات کی مثال بنانا ہے تو موجودہ حکمران کیوں نہیں بناتے کہ تمام خاص و عام کو ایک جیسی سہولیات دیں ۔ان کے گھروں پر مامور درجنوں لوگ ،سرکاری گاڑیاں ،دفاتر گھراور کیا کیا سہولیات حاصل کر رہے ہیں،یہ سب سہولیات ایک عام پاکستانی کو بھی دی جائیں۔ہر عہدیدار کی تنخواہ اور مراعات مختلف ہوتی ہیں ۔اگر سب کو کہا جائے کہ برابر تنخواہ اور مراعات دی جائیں تو یہ غیر حقیقی اور غیر مناسب بات ہو گی ۔معاشرے میں سب برابر نہیں ہوتے ۔کسی اعلیٰ منصب پر فائز شخصیت کہ معاملہ یقیناً مختلف ہوجانا فطری بات ہے۔اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ بعض شخصیات کی جان اس لئے قیمتی ہوتی ہے کہ اس کی جان جانے سے بہت سی جانوں کا ضیاع کا خدشہ ہوتا ہے ۔ان سے ملکی اور قومی بہت سے معاملات جڑے ہوتے ہیں۔اسی لئے ان کی جان کا تحفظ خاص طور پر کیا جاتا ہے۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اہل دانش اور سیاسی بصیرت رکھنے والے حکمرانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی صحت کے معاملے میں حکومتی سطح پر کھلواڑ نہ کیا جائے ۔اگر انہیں کچھ بھی ہوا تو اس کے نتائج پر قابو پانا خود حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔زندگی موت اﷲ تعالٰی کے اختیار میں ہے۔علاج کی کوشش انسان کے بس میں ہے ۔میاں نواز شریف نے حکومتی مشروط اجازت قبول نہیں کی یہی ان کی زندگی کا پروانہ بنے گا۔تکبر بھری طرزِ حکمرانی موت کے دھانے پر کھڑی ہو چکی ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.