مولانا فضل الرحمان کا پلان بی ۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمان کا ’’آزادی مارچ دھرنا‘‘ زمانے بھر کی ذلت ورسوائیاں سمیٹے اور لپیٹے اپنی موت آپ مرچکاہے۔ خودساختہ ،کھلنڈرے لیڈر فضل الرحمان نے اِس آزادی مارچ سے پایابھی کچھ نہ ہے۔کھایا
نہ پیا،گلاس توڑا بارہ آنے کا والا معاملہ ہوا۔اپنی لمبی زبان اور اِس کے بے احتیاط استعمال کے باعث خاص وعام میں بُری طرح پہنچانے گئے،اپنی مذموم حرکات وسکنات ،مہم جوئی اور اداروں کے خلاف یاوہ گوئی کے سبب اِن کے ذہن وخیال میں کیا چلتا کابھی پتاچل گیا اور یہ کہ یہ ملک وقوم کے کتنے خیرخواہ سے بھی سبھی آگاہ ہوگئے ہیں۔ اپنی غلط عادات واطوار اورمحدور سوچ وخیال کے باعث حلقہ یاراں میں بھی ذلیل ورسوا ہوئے پڑے ہیں۔چند روز کے اِس ’’بندرناچ‘‘نے اِن کو کہیں کا نہیں رہنے دیا،پہلے ہی پلے کچھ نہ تھا جوعزت باقی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ اپنی مذموم حرکات وسکنات اور لاشیں گرادینے کے شوق نے اِن کو ریاست و اُس کے اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے سامنے بھی ننگاکردیاہے اورفضل الرحمان حقیقتاًکس مشن پر گامزن کی قلعی بھی سب کے سامنے کھول کے رکھ دی ہے۔اِن اور اِن پر مشتمل ٹولے کی بڑی باتوں اور بڑے بڑے دعووں’یہ کردیں گے وہ کردیں گے‘‘سن کر ایسے لگتا تھا کہ جیسے سورج اِن کے حکم سے نکلتاہو۔اپنی باتوں اور دعووں کے ساتھ ذلت وشرمندگی کی تصویر بنے زمین بوس ہوچکے ہیں ۔شکست خوردہ افراد کا یہ ٹولاجس گھناؤنے مقاصد کے حصول کی خاطر ہمراہ مسلح جتھوں کے ملک کے طول وعرض سے آکر اسلام آباد پر یلغار کرنے آیاتھا اُس اپنے مشن کی تکمیل میں ریاست و اُس کے اداروں کی فہم وفراست کے باعث بُری طرح ناکام ونامراد ٹھہرے چاروں شانے چت ہوا پڑا تھا۔اِس میں پاکستان کے دشمنوں کے لیے بھی ذلت کا مقام ہے جو پاکستان کو کمزور اور دولخت کرنے کا خواب سجائے بیٹھے اِس ’’آزادی مارچ‘‘کی رونقیں بڑھائے ہوئے تھے۔پاکستان کی سلامتی کو تہہ وبالا کرنے کی سوچ لیے اِس کی سلامتی ووقار پر حملہ آورتھے۔ملک میں فساد وانتشار چاہتے تھے۔ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ ملک کی حفاظت کرنے والے اداروں کی پوزیشن خراب کرناچاہتے تھے ۔پاکستان کی باوقار فوج کو دوسروں کے سامنے متنازعہ بنانا چاہتے تھے۔سب سپنے چکناچور ہوئے اور دشمن ناکام ٹھہرا۔

’’آزادی مارچ‘‘کے نام پراوروں کارچایا ہوا ڈرامہ مارچ اپنے انجام کو پہنچے کچھ افراد کو قوم کے سامنے عیاں کرتا اور اُن کی چھپی حقیقتوں کو کھولتا دھڑن تختہ ہوا۔’’آزادی مارچ‘‘کے آوارہ ذہن و خیال کے مالک لوگ کبھی سرحد کے اُدھر اور کبھی سرحد کیااِدھر پنچھی اِس فضول وبے کار مگر اوروں کے لیے کی گئی مہم جوئی سے کچھ پاتونہ سکے مگر اپنامنہ ضرور کالا کرواگئے۔جس کی ذلتیں اور رسوائیاں اب منہ دھونے سے بھی دُھلنے والی نہیں ہیں۔یہ وہ داغ ہیں کہ جوانمٹ نقوش چھوڑ گئے۔اِس دیس سے کون کتنا مخلص کاراز جان گئے۔افراد پہچان گئے۔وطن عزیز نے اِس ’’آزادی مارچ‘‘سے جلدہی وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو شاید ہم اِس کے انعقاد کے بغیر کوششوں سے بھی حاصل نہ کرپاتے۔بدخواہ فضل الرحمان تمہاراشکریہ ،تمہاراآنا تمہیں نہ سہی ملک کو بہت کچھ دے گیا۔کچھ ’’مذموم ارادے‘‘ اور کچھ’’ آؤٹ آف کنٹرول بابے ‘‘نمایاں ہوکر سامنے آگئے۔جن کا اصل چہرہ کیا،قوم کو دکھانا آسان نہ تھا۔ ملک کی ستم ماری صورتحال میں یہ ملک کے لیے ایک اچھی خبر اور تسلی کاسامان ہے کہ وطن عزیزکی ریاست واُس کے اداے جان گئے کہ کون اپنا کون پرایا۔ وہ گئے تھے سجانے ’’آزادی مارچ‘‘کسی اور کے فائدے کے لیے اورسامان کرگئے اچھے ہمارے کے لیے۔مولانا فضل الرحمان کا ابھی پلان بی اور سی چل رہاہے ،ریاست واداروں کے ساتھ ساتھ قوم بھی دیکھ رہی ہے کہ ملک کی اہم شاہراہیں بلاک کرکے فضل الرحمان کیا گل کھلارہے ہیں اورساتھ ساتھ کیسی بے تکی اور بہکی بہکی سی باتیں کررہے ہیں۔میرے خیال کے مطابق تو شائد ریاست و اُس کے ادارے خود ہی مولانا کو آزادی مارچ دھرنے کے اب ملک کی اہم شاہراہیں بند کرنے جیسی ا’وچھی حرکتیں کرنے کی اجازت دئیے ہوئے ہے کہ فضل الرحمان کے بھونڈے ارمان کا کوئی شوق باقی نہ رہے اور یہ کہ قوم اِس کھلنڈرے خودساختہ مولوی کی کسی حرکت سے بے خبر نہ رہے۔اِس لیے اِن کو صبر کی انتہاء تک موقع دینا چاہتے ہیں تاکہ بعد ازاں اِن کے خلاف ریاستی سطح پرکسی قسم کی کارروائی کے نتیجے میں قو م فضل الرحمان کے حق میں اُٹھ نہ سکے۔شائد حکومتی وعسکری قیادت نے یہ پتلی تماشااب تک اِسی لیے مکمل بند نہیں کروایاکہ قوم کچھ ’’محب وطن‘‘افراد کے چہرے ،حلیے ،اندازواطواراور گھٹیاارادے اچھی طرح بھانپ یاجان لیں کہ مزید کوئی کسر باقی نہ رہے۔اِس لیے ’’آزادی مارچ دھرنا‘‘کے بعد مولانا کے پلان بی اور سی کا حال بھی سوائے کھجل خواریوں کے اور کچھ نہ ہوناہے۔ مولانا کے آزادی مارچ کی ناکامی کے ساتھ ہی پلان بی اور سی بھی اپنی قدر کھوچکاہے قوم عنقریب مولاناکے پلان بی اور سی کی بھی باضابطہ موت ہوگئی کی بھی اطلاع سُنے گی۔جائیے گا کہیں نہ،بس اطلاع آتی ہی ہوگی۔مجھے افسوس ہوتاہے اُن لوگوں پر جوکہتے ہیں کہ فضل الرحمان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے وہی سب کروا رہی ہے۔میں یہ بات نہیں مانتا کہ فضل الرحمان جیسے خودساختہ کھلنڈرے لیڈر کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے(بیرونی ہاتھ کوخارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا)ہاں اتنا ضرور کہوں گاکہ فضل الرحمان کے ’’آزادی مارچ‘‘ کو لگام دینے اور ختم کروانے میں ریاست کے ساتھاُس کے اداروں باالخصوص فوج کا کردار بھی ہوسکتا ہے۔ #

 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 54664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.