بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ آچکا ہے اور اس فیصلے نے کئی
ایسے مقدموں اور فیصلوں پر پردہ ڈال دیا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کے
تعلق سے بے حد معنی خیز رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ
صرف سپریم کورٹ میں ہونے والی بحث و ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ اس
مقدمے کا فیصلہ ماضی میں دئے جانےوالے فیصلوں کی بنیاد پر بھی دیا گیا ہے۔
فیض آباد کورٹ، الہ باد ہائی کورٹ میں جو فیصلے لئے گئے تھے اس میں کہیں
نہ کہیں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ عدالت نے فیصلے کو زمین کے مالکانہ
حقوق کو بنیاد بنایا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے بالکل وہی رویہ اختیار کیا ہے
جو ایک باپ اپنی بیٹی کو اسکے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کے لئے بیٹی
کی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی داماد کی تائید کرتے ہوئے بیٹی کو ہی نصیحت کرتا
ہے اور داماد کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جاتاہے اور کہتاہے کہ تمہیں اب
وہاں رہنا ہے تو سہنا ہی پڑیگا۔ سپریم کورٹ نے بھی تمام دستاویزات ، حالات
اور ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے فیصلے کو مظلوم کے برعکس سناتے ہوئے
کہا ہے آئین کی شق 142 کے تناظر میں یہ فیصلہ لیا گیاہے ۔ دراصل سیکشن 142
کے مطابق اگر کوئی مقدمے میں سپریم کو رٹ یا عدالت فیصلہ سنانے کے دوران
احساسات و جذبات کو ملحوظ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن ماہرین کا یہ بھی
کہناہے کہ آئین کی شق 142 کو مالکانہ حقوق کے معاملات میں استعمال نہیں
کیا جاسکتا۔ بحر حال ، جتنے منہ اتنی باتیں ۔ لیکن پردے کے پیچھے سے بھی
کچھ سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ وہ سوالات ہیں جو سپریم کورٹ پر نہیں بلکہ
سپریم کورٹ میں براجمان جج صاحبان سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جسٹس لوہیا کی موت نے
ہندوستان کے جمہوری و عدلیہ کے نظام پر سوالیہ نشان پیدا کردیے ہیں ، جب
جسٹس لوہیا نے ملک کی زیر اقتدار سیاسی جماعت کے کچھ لیڈروں پر تحقیقات
کرنے کی تیاری کردی تو انکی اچانک موت ہوگئی تھی اور انکی موت کو لے کر
انکے اہل خانہ نے شک ظاہر کرتے ہوئے جسٹس لوہیا کی موت کی تحقیقات کروانے
کا مطالبہ کیا تھا ۔ لوہیا کی موت کے بعد یہ بات تو طئے ہوگئی کہ انصاف کے
ساتھ جانے والوں کی موت صرف فلموں اور سیریلوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ حقیقت
میں بھی ہوسکتی ہے ۔ اب ہم بات بابری مسجد کے مقدمے کی کریں تو ہمارے سامنے
دو نکات ہیں ، پہلے نکتے میں یہ ہے کہ کچھ ماہ قبل جسٹس گگوئی نے اچانک ایک
پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھاکہ ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے اور ملک
تباہی کی جانب گامزن ہے ، اس پریس کانفرنس کے بعد نہ صرف ہندوستان میں
حکومت کی تنقید ہونے لگی تھی بلکہ یہ مدعا دنیا میں بھر میں زیر بحث رہا کہ
سپریم کورٹ کے ججوں کو ہی جب ملک کی حکومت پر بھروسہ نہیں اور وہ ہندوستان
جیسے طاقتور جمہوری ملک کے نظام کو خطرے میں بتارہے ہیں ۔ اس پریس کانفرنس
کے بعد عدلیہ کے نظام میں کافی تبدیلیاں آگئی ۔ سب سے بڑی تبدیلی تو وہ
رہی جس میں چیف جسٹس گگوئی پر الزام لگاکہ انہوںنے انکے دفتر کی خاتو ن
اہلکار کےساتھ جنسی حراسانی کی ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ گرما گیا ،
لیکن یہ معاملہ جتنی تیزی کے ساتھ گرمایا تھا اتنی ہی تیزی کے ساتھ معاملہ
ٹھنڈا بھی ہوگیا اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ۔ ایک فلم میں دیکھا
گیا ہے کہ ایک ویلن اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے عدالت میں جج کی بیٹی کو
اغواء کرلیتاہے اور عدالت میں جج ویلن کے بیٹے کے حق میں فیصلہ سناتا ہے جس
کے بعد ویلن جج کی بیٹی کو رہا کردیتاہے ۔ چونکہ زیر اقتدار حکومت میں بھی
درجنوں ویلن ہیں تو کیا اس بات کا گمان نہیں کیاجاسکتا کہ بابر ی مسجد ،
رافیل ، سبری ملائی ،ین آر سی ، طلاق ثلاثہ جیسے مقدمات میں حکومت کے حق
میں فیصلہ دینے کے لئے سپریم کورٹ پر کسی ویلن نے دبائو ڈالا ہو۔ اگر ایسا
ہوتاہے تو مجبوراََ صاحب منصف یعنی ججوں کو کچھ وقت کے لئے حکومت کی باتوں
کو ماننا ہی پڑیگا اور فیصلہ اشاروں کے مطابق دے دیا ہوگا ۔ پچھلے چھ ماہ
میں ہندوستان کی عوام نے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ سے وہ
فیصلے سنے ہیں جس کی تو قع بھی نہیں کی جاسکتی ۔ ہمارے دو نکات میں سے ایک
نکتہ یہ ہوا اور دوسرےپوائنٹ پر ہم بات کرینگے ۔ سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن
گگوئی کی تقرری ہوتی ہے اور کچھ دنوں میں عدالت سے باہر نکل کر ایک پریس
کانفرنس منعقد کرتے ہیں ، انکے ساتھ کچھ اور ججس بھی ہوتے ہیں ۔ پریس
کانفرنس میں جسٹس گگوئی حکومت پرحملہ کردیتے ہیں ، پھر خاموشی چھا جاتی ہے
، حکومت کی ہر ادا چیف جسٹس کو لبھا جاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہواکہ تقرری
مرکزی حکومت کے اشارے پر ، مخالفت بھی مرکزی حکومت کے اشارے پر ہی ہوئی
ہوگی تاکہ ہندوستان کی عوام کو یہ محسوس ہوجائے کہ موجودہ سی جے آئی نہایت
سیکولر شخص ہے اور یہ حکومت کے خلاف ہے ۔ جب یہ بات عوام کے ذہین میں بیٹھ
جائے تو جسٹس گگوئی کے ہر فیصلے میں عوام کو خیر نظر آنے لگے گااور ہوا
بھی یہی ۔ عوام نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ تو سیکولر جج ہیں بس مودی
حکومت ہی غلط ہے جو مسلمانوں کا استحصال کررہی ہے ۔ بس بات اتنی تھی کہ وہ
مارے جیسا کریگا اور یہ روئے جیسا کردار ادا کریگا ۔ جس میں سابق سی جے
آئی اور مودی جی دونوں کامیاب ہوگئے ۔ عدالت انصاف کے لئے ہوتی ہیں جذبات
کے لئے سیاسی مراکز ہیں ۔ جب کسی ملک میں انصاف کو جذبات کے نظریہ سے کیا
جانے لگے گا تو اس ملک میں آئین کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی اور وہ ملک
زیادہ وقت تک ملک نہیں رہے بلکہ اسکے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے ۔
|